Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 106
یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ١۫ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
يَّوْمَ : دن تَبْيَضُّ : سفید ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے وَّتَسْوَدُّ : اور سیاہ ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : لوگ اسْوَدَّتْ : سیاہ ہوئے وُجُوْھُھُمْ : ان کے چہرے اَكَفَرْتُمْ : کیا تم نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : اپنے ایمان فَذُوْقُوا : تو چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا كُنْتُمْ : کیونکہ تم تھے تَكْفُرُوْنَ : کفر کرتے
اس دن جس کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا ہے تو اب چکھو عذاب اپنے کفر کی پاداش میں۔
تفسیر آیت 160 تا 109: مسلمانوں کو چند تنبیہات : نظمِ کلام کی روشنی میں ان آیات پر غور کیجیے تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئیں گے۔ اول یہ کہ اعتصام بحبل اللہ سے محروم ہوجانے کے بعد اہل کتاب اختلاف و انتشار میں مبتلا ہوئے اور یہ انتشار و اختلاف در حقیقت ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹ جانے کے ہم معنی ہے۔ دوم یہ کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ یہ سرفرازی و سرخروئی بخشتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں خود اپنی رسی پکڑاتا ہے اگر وہ اپنی شامت اعمال سے اس رسی کو چھوڑ کر دوسرے پھدنے اپنی گردنوں میں ڈال لیتے ہیں تو قیامت کے دن ان کو اسی درجے کی روسیاہی بھی حاصل ہوگی جس درجے کی ان کو سرخ روئی بخشی گئی تھی۔ چہرے روشن ان کے ہوں گے جو ہر طرح کے حالات میں اس رسی کو تھامے رہیں گے۔ یہ لوگ بیشک اللہ کے فضل و رحمت کے حق دار ہوں گے۔ سوم یہ کہ یہ ساری تنبیہات بالحق ہیں یعنی ہر بات شدنی ہے۔ ان کو محض خالی خولی دھمکی سمجھ کر جو لوگ نظر انداز کریں گے وہ اپنی روسیاہی کا سامان خود کریں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری انہی پر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آگاہی پہلے سے اسی لیے منادی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ کسی کو سزا اس پر حجت تمام کیے بغیر دے۔ چہارم یہ کہ آسمان و زمین میں سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ سارے امور اسی کے حضور پیش ہوں گے اور اسی کا فیصلہ ناطق و نافذ ہوگا۔ اگر کسی نے کسی اور سے امید باندھ رکھی ہو تو اس کی یہ امید محض ایک واہمہ ہے جو حقیقت کے ظہور کے بعد بالکل سراب ثابت ہوگی۔ یہ ملحوظ رہے کہ یہ ساری تنبیہات مسلمانوں کو سنائی جا رہی ہیں کہ ان تمام خطرات سے بچ کے رہنا۔ اگلی آیات 110 تا 120 کا مضمون : اوپر کی تنبیہات کے اندر یہ حقیقت خود بول رہی تھی کہ اہل کتاب جس منصب امامت پر اب تک سرفراز رہے ہیں ہر پہلو سے وہ اس کے لیے نااہل ثابت ہوچکے ہیں۔ اس وجہ سے وہ اس منصب سے معزول ہوئے اور خدا نے یہ امانت اس امت کے سپرد فرمائی جو اس کی اہل ہے۔ ساتھی ہی مسلمانوں کو یہ بشارت دی ہے کہ اب یہ اہل کتاب تمہاری مخالفت میں جتنا زور چاہیں لگا لیں وہ تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے بلکہ ہر جگہ منہ کی کھائیں گے اور ان کے لیے ذلت مقدر ہوچکی ہے۔ اثنائے کلام میں اہل کتاب کے اس گروہ کی تحسین بھی فرمائی ہے جو حق پر قائم تھا اور جو بالآخر دولت اسلام سے سرفراز ہوا۔ پھر اہل کتاب کی اصل بیماری کی طرف اشارہ ہے جو فی الحقیقت قبول حق میں ان کے لیے حجاب بنی اور یہ واضح فرمایا کہ اس حق سے محروم رہنے کے بعد اب وہ اپنی دینداری کا بھرم رکھنے کے لیے جو ظاہر داری بھی کریں گے سب اکارت جائے گی، اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ اب تم ان سے تمام تعلقات دوستی و محبت ختم کرلو اس لیے کہ اب تمہارے لیے ان کے دلوں میں دشمنی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور ان کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔
Top