Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور یاد کرو جب کہ تم اپنے گھر سے نکلے مسلمانوں کو جنگ کے مورچوں میں مامور کرنے کے لیے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
’ بَوَّا، یُبَوِّئُ ‘ کے معنی ٹھہرانا، ٹکانا، مقیم کرنا، مامور کرنا۔ مقاعد، مقعد کی جمع ہے جس کے معنی بیٹھنے کی جگہ کے ہیں لیکن وسیع استعمال میں اس کے معنی گھات لگانے کی جگہ کے بھی ہوسکتے ہیں اور قرینہ موجود ہو جیسا کہ یہاں ہے تو اس سے جنگ کا مورچہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ یہ آیت تمہید ہے اس تبصرے کی جو جنگ احد کے واقعات اور ان سے پیدا شدہ اثرات پر آگے آ رہا ہے۔ یہ جنگ چونکہ ابھی تازہ تازہ ہوئی تھی، اس وجہ سے ہر شخص کے سامنے تھی، نام لیے بغیر بھی اس کے واقعات کی طرف اشارہ کردینا کافی تھا۔ لیکن یہ تبصرہ چونکہ بعض ایسے حالات و اثرات پر بھی تھا جن کے بعض گوشے بعض پارٹیوں کی درپردہ سازشوں سے تعلق رکھنے والے تھے یا ان کا تعلق ذہنی و قلبی تصورات و تاثرات سے تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات، سمیع وعلیم، کا حوالہ دے کر تمہید ہی میں سب کو متنبہ کردیا کہ اس تبصرے پر کسی کے لیے چون و چرا، ردوقدح اور بحث و تردید کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ یہ تبصرہ اس کی طرف سے ہے جو سب کچھ جانتا سنتا ہے۔ اس نے جو کچھ بھی کہا ہے سب کچھ بےخطا سمع و علم پر مبنی ہے۔
Top