Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
جب کہ تم میں سے دو جماعتوں نے حوصلہ چھوڑ دینے کا ارادہ کیا حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا۔ اور اللہ ہی پر چاہیے کہ اہل ایمان بھروسہ کریں۔
’ فشل ‘ کے معنی ہمت ہار دینے اور حوصلہ چھوڑ دینے کے ہیں۔ جنگ میں اصل اہمیت حوصلہ وہمت کو حاصل ہے، اسلحہ اور دوسری چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس وجہ سے سب سے پہلے بعض جماعتوں کی اس کمزوری پر گرفت فرمائی۔ منافقین کی ایک شرارت : اس آیت میں جن دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے، مفسرین کے بیان کے مطابق، وہ قبیلہ خزرج کے بنو سلمہ اور قبیلہ اورس کے بنوحارثہ ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے اندر منافقین کی شرارت کی وجہ سے کچھ بزدلی پیدا ہوئی لیکن پھر وہ سنبھل گئے۔ منافقین درحقیت اس جنگ کے لیے نکلنا نہیں چاہتا تھے۔ آنحضرت ﷺ کو ان کی اس کمزوری کا اندازہ تھا۔ چناچہ آپ نے یہ چاہا کہ نکلنے سے پہلے صحیح صورت حال سامنے آجائے۔ اس کے لیے امتحاناً آپ نے مسلمانوں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ قریش کا مقابلہ مدینہ کے ھ اندر سے کیا جائے یا باہر نکل کر، اس کا جواب سچے اور پکے مسلمانوں کی طرف سے تو ظاہر ہے کہ یہی ہوسکتا ہے کہ باہر نکل کر، چناچہ انہوں نے پورے جوش وجذبے کے ساتھ یہی جواب دیا۔ لیکن منافقین نے مدینہ میں محصور ہو کر مقابلے کی مصلحتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ آنحضرت نے جب صورت حال کا اندازہ کرلیا، منافقین کی کمزوری آپ پر واضح ہوگئی تو آپ نے وہی کیا جو آپ کے دل میں تھا اور جس کا اظہار آپ کے جان نثار ساتھیوں نے کیا تھا۔ منافقین نے جب دیکھا کہ ان کی یہ سازش ناکام ہوگئی تو وہ نکلنے کو تو مسلمانوں کے ساتھ نکلے، للیکن نکلنے کے بعد ان کے لیڈر ابن ابی نے ان کو ورغلایا اور اس چیز کو بہانہ بنا کر کہ اس کے مشورے کی قدر نہیں کی گئی، راستے میں تین سو آدمیوں کے لشکر کے ساتھ الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے قدرتی طور پر مسلمانوں کی بعض جماعتوں کے حوصلے پر اثر پڑا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار کفار کے مقابلے میں کل ایک ہزار تھی۔ ایک ہزار آدمیوں میں سے تین سو آدمیوں کا عین موقع پر فرار، ظاہر ہے کہ ایک اہم حادثہ تھا جس سے کمزور طبائع کا اثر لینا قدرتی امر تھا۔ قرآن نے اس کمزوری پر گرفت کی اور فرمایا کہ جو مسلمان اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلتے ہیں اللہ ان کا مددگار اور کارساز ہوتا ہے اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان خدا کی مدد اور اس کی کارسازی پر پورا پورا بھروسہ رکھیں۔ جب خدا ساتھ ہے تو منافقوں اور بزدلوں کی کوئی جماعت ساتھ چھوڑ بھی دے تو اس سے کیا بنتا بگڑتا ہے۔
Top