Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! سود نہ کھاؤ دگنا چوگنا بڑھتا ہوا۔ اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
’ اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ‘ کی قید کا مقصد : لفظ ربوا کی تحقیق اور اس سے متعلق دوسرے بعض اہم سوالات پر سورة بقرہ میں بحث گزر چکی ہے۔ یہاں اس کے ساتھ اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کی جو قید لگی ہوئی ہے اس سے مقصود یہ ہے نہیں کہ اسلام میں ممنوع صرف سود در سود ہے، بلکہ یہ قید، جیسا کہ ہم سورة بقرہ میں ’ لایسالون الناس الحافا ‘ کے تحت متعدد مثالوں سے واضح کرچکے ہیں، محض صورت حال کی تصویر اور اس کے گھنونے پن کے اظہار کے لیے ہے۔ جس طرح ’ لاتکرھوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا : اپنی لونڈیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو اگر وہ قید نکاح میں آنا چاہتی ہیں ‘ میں ’ ان اردن تحصنا ‘ کی شرط سے مقصود یہ نہیں ہے کہ اگر وہ قید نکاح میں نہ آنا چاہیں تو ان کو پیشہ کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ مقصود اس سے صرف حال کی تصویر اور اس کے نفر انگیز ہونے کا اظہار ہے۔ اسی طرح آیت زیر بحث میں اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کی قید ہے۔ یہاں اس قید کے نمایاں کرنے میں بلاغت کا ایک نکتہ بھی ہے۔ اوپر ہم ظاہر کرچکے ہیں کہ یہاں اصل مضمون جو بیان ہو رہا ہے وہ جہاد کے سلسلہ سے انفاق کا ہے۔ اس کی تمہید کے طور پر یہ سود خوری کی ممانعت کا ذکر ہوا ہے اس لیے کہ یہ انفاق کا ضد ہے۔ انفاق کا ذکر یہاں جس نوعیت سے ہوا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کو اس راہ میں مسابقت یعنی ایک دوسرے کے مقابل میں بڑھنے، بازی لے جانے اور میدان مارنے کی دعوت دی گئی ہے۔ گویا اہل ایمان کے لیے مقابلہ و مسابقت کا میدان اگر ہے تو یہ ہے۔ چناچہ اس مضمون کی تمہید ”سَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ الایہ : اور مسابقت کرو اپنے رب کی رحمت اور ایسی جنت۔۔۔“ ہے۔ یہ مضمون اس بات کا مقتضی ہوا کہ اس میدانِ مسابقت کی دعوت دینے سے پہلے لوگوں کو اس میدان سے موڑا جائے جس میں یہودی ساہو کار اور مہاجن اب تک ایک دوسرے پر سبقت کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی عربوں کو بھی اس کا چسکا لگ رہا تھا۔ عربی زبان کا جن لوگوں کو کچھ ذوق ہے وہ اندازہ کرسکیں گے کہ سود خوری کے میدان میں اس مسابقت کا اظہار اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کے الفاظ سے ہورہا ہے۔ اگر یہ الفاظ نہ ہوتے تو یہ حقیقت پوری طرح سامنے نہ آتی۔ قرآن نے یہ چاہا ہے کہ لوگ اس ناپاک میدان میں اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کی غلاظت کا انبار جمع کرنے کے بجائے اس جنت کے لیے بازیاں لگائیں جس کی پہنائی آسمان و زمین کے برابر ہے۔
Top