Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 45
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے لیے مسابقت کرو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے عرض کی طرح ہے، یہ پرہیز گاروں کے لیے تیار ہے۔
جنت کی وسعت کی ایک تمثیل : یعنی سود کے ذریعہ سے اگر بہت تیر ماروگے تو ایک کا دس یا بیس یا سو یا ہزار بنا لوگے اور اس کا نفع بہرحال اسی زندگی تک محدود رہے گا۔ آخرت میں یہ سارا اندوختہ تمہارے جلانے کے لیے ایندھن بنے گا۔ برعکس اس کے اگر اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرو گے تو اس کے بدلے میں خدا کی مغفرت کے حق دار اور اس کے نتیجے میں ایسی وسیع جنت کے وارث ٹھہروگے جس کی وسعت کے آگے تمام آسمانوں اور پوری زمین کی وسعت گرد ہو کے رہ جائے گی۔ پھر ایک بند گلی کی ایک محدود تنگ نائے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کے بجائے ابدی زندگی کی یہ ناپید اکنار بادشاہی حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کیوں نہ کرو۔ یہی مضمون سورة حدید میں اس طرح آیا ہے ”اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الأمْوَالِ وَالأوْلادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ (20) سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالأرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (21): جان رکھو کہ یہ دنیا کی زندگی، لہو ولعب، زینت، باہمی تفاخر، مال و اولاد کی کثرت میں ایک دوسرے کا مقابلہ، اس کی تمثیل اس بارش کی ہے جس کی اگائی ہوئی نباتات کسانوں کے دل موہ لیں۔ پھر وہ خشک ہو کر رہ جائیں پھر تو دیکھے ان کو زرد، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور آخرت میں سخت عذاب بھی ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی بھی ہے اور یہ دنیا کی زندگی محض دھوکے کی ٹٹی ہے۔ مسابقت کرو اپنے رب کی مغفرت اور ایک ایسی جنت کی طرف جس کا عرض آسمان و زمین کی طرح ہے یہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ دے گا جس کو چاہے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے“ (حدید :20-21)۔ جنت کی وسعت کی یہ تمثیل بھی بہرحال ایک تمثیل ہی ہے جس سے انسان اس کی وسعت کا بس ایک دھندلا سا تصور کرسکتا ہے۔ اصل حقیقت اس کی وسعت کی کیا ہے۔ یہ صرف اللہ ہی کو معلوم ہے لیکن اس وسعت کے باوجود انسان اگر چاہے تو خدا کی راہ میں انفاق کر کے اس کو خرید سکتا ہے۔
Top