Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 142
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ
اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم سمجھتے ہو ؟ اَنْ : کہ تَدْخُلُوا : تم داخل ہوگے الْجَنَّةَ : جنت وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَعْلَمِ اللّٰهُ : اللہ نے معلوم کیا الَّذِيْنَ : جو لوگ جٰهَدُوْا : جہاد کرنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَيَعْلَمَ : معلوم کیا الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
کیا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں جا داخل ہوگے حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو ممیز نہیں کیا جنہوں نے جہاد کیا اور تاکہ ممیز کرے ثابت قدم رہنے والوں کو۔
’ علم یعلم ‘ کے مختلف معانی پر سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم بحث کرچکے ہیں۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ یہ ممیز کرنے اور چھانٹ کر الگ کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ کے بعد اس کا مقابل جملہ الذین لم یجاھدوا عربیت کے معروف اسلوب کے مطابق حذف کردیا گیا ہے وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ میں یَعْلَمَ کے فتحۃ کے بارے میں لوگوں نے مختلف توجیہیں پیش کی ہیں لیکن ہمارے نزدیک اس کا عطف اوپر وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا پر ہے۔ وہاں چونکہ کلام قانون ابتلا کی دوسری حکمتوں کے بیان کی طرف مڑ گیا تھا اس وجہ سے صبر کے ذکر کو مضمونِ جہاد سے وابستہ کردیا لیکن اس کے فتحۃ سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوگئی کہ آزمائش کر کے اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو چھانٹنا چاہتا ہے ان میں صابرین بھی ہیں۔ راہِ حق میں آزمائشیں ناگزیر ہیں : احد کی شکست سے جو لوگ بد دل ہوئے تھے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر تمہارا یہ گمان تھا کہ حق کی راہ خطرات اور آزمائشوں سے خالی ہے اور تم اسلام کا دعویٰ کر کے ایک ٹھنڈی سڑک سے سیدھے سیدھے جنت میں جا براجوگے تو تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ خدا کی جنت میں کوئی شخص اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتا جب ت امتحان سے یہ متعین نہ ہوجائے کہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کا ولولہ رکھتا ہے یا نہیں اور حق کے لیے آزمائشوں کی تاب لا سکتا ہے یا نہیں۔ چناچہ اسی چیز کی جانچ کے لیے تمہیں یہ حد کی آزمائش پیش آئی۔ اب تک تمہاری طرف سے جہاد کے لیے بڑے جوش و خروش کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ لیکن اس کی نوعیت صرف زبانی جمع خرچ کی تھی۔ ضرورت ہے کہ سچے اور جھوٹے، عاشق صدق اور بوالہوس کے درمیان امتیاز کے لیے کوئی ایسا موقع پیش آئے جب موت سے رو در رو ہو کر تمہیں لڑنا پڑے۔ چناچہ یہ موقع اللہ نے تمہیں دکھا دیا اور تمہارے کھرے اور کھ ﷺ تے میں امتیاز کی ایک کسوٹی سامنے آگئی۔ یہ بات یہیاں یاد رکھنے کی ہے کہ جو لوگ دل کے کمزور تھے بالعموم وہ زبان سے شوق جہاد کا اظہار زیادہ کرتے تھے تاکہ ان کی کمزوری پر پردہ پڑا رہے۔ سورة نساء میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ ہے أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلا تُظْلَمُونَ فَتِيلا (77): کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا۔ جن سے کہا جاتا تھا کہ ابھی اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کردی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح خدا سے ڈرنا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور کہتا ہے کہ اے رب تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، کچھ دن اور مہلت کیوں نہ دی ؟ اگلی آیات 144 تا 148: آگے کی آیات میں پہلے یہ غلط فہمی دور فرمائی کہ محمد ﷺ کوئی مافوق بشر ہستی نہیں ہیں، وہ اللہ کے رسولوں میں سے ایک رسول ہیں جس طرح بہت سے رسول گزر چکے ہیں اس طرح ایک دن ان کو بھی بہرحال وفات پانا ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ وہ شہید کردئیے جائیں لیکن اللہ کے دین کو ہمیشہ باقی رہنا ہے تو اس دین کے ساتھ آدمی کی وابستگی اس مفروضہ پر مبنی نہیں ہونی چاہئے کہ آپ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے آئے ہیں۔ اس غلط فہمی کی اصلاح اس لیے ضرور تھی کہ اگر اس قسم کا کوئی وہم دلوں میں چھپا ہوا رہتا تو آپ کی وفات پر سب کے دل بیٹھ جاتے اور منافقین و معاندین، اسلام کی مخالفت میں اس سے بڑا فائدہ اٹھا سکتے۔ چناچہ جوں ہی اس غلط فہمی کی موجودگی کے کچھ آثار نمایاں ہوئے قرآن نے اس کی اصلاح فرما دی۔ روایات میں آتا ہے کہ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوگئی تو یہ خبر بھی مشہور ہوگئی کہ خود سرور عالم ﷺ بھی شہید ہوگئے۔ اس اندوہناک خبر نے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے پست کردیے۔ انہوں نے خیال کیا کہ جب حضور ہی شہید ہوگئے تو اب بھلا کیا ہوسکتا ہے۔ اگرچہ ذی ہوش لوگوں نے یہ کہہ کر حالات کو سنبھالا کہ جب حضور شہید ہوگئے تو ہمارے زندہ رہنے سے کیا حاصل، ہمیں بھی اسی مقصد حق کے لیے شہید ہوجانا چاہئے جس کے لیے حضور شہید ہوئے، تاہم مسلمانوں کے اندر یہ ایک ایسی کمزوری نمایاں ہوئی تھی جس کی بروقت اصلاح خود قرآن کی زبان سے ضروری تھی تاکہ آئندہ کے لیے فتنوں کا سدباب ہوجائے۔ اس کے بعد پچھلے انبیا اور ان کے جاں نثار صحابہ کا ذکر بطور مثال کیا ہے کہ انہیں بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا پڑا، اور اس راہ میں انہیں تکلیفیں اور مصیبتیں بھی پہنچیں لیکن وہ دل شکستہ نہ ہوئے تو پھر تم کو اگر شکست ہوئی یا تمہارے پیغمبر کو کوئی تکلیف پہنچی تو تم کیوں دل شکستہ ہوتے ہو تم بھی انہی کی روش اختیار کرو جب کہ اسی کام کے لیے ا تھے ہو جس کے لیے وہ اٹھے تھے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔ ارشاد ہے۔
Top