Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
بیشک آسمانوں اور زمین کی خلقت اور رات دن کی آمد و شد میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں
190-191:۔ ارباب بصیرت کی نگاہ : محبت دنیا کے ان اندھوں کا ذکر کرنے کے بعد، جو نبی ﷺ کی تکذیب کے لیے اس قسم کی کٹ حجتیاں پیدا کر رہے تھے جن کی تفصیل اوپر بیان ہوئی اب یہ ان ارباب بصیرت کا بیان ہورہا ہے جو اللہ کو ہر جگہ اور ہر حال میں یاد رکھتے ہیں اور زمین و آسمان کی خلقت پر برابر غور کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ ذکر و فکر خود بخود ان کو اس نتیجے تک پہنچا دیتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ بےغایت و بےمقصد نہیں ہوسکتا، اور جب بےغایت و بےمقصد نہیں ہوسکتا تو لازم ہے کہ محض اتنے ہی پر تمام نہ ہوجائے جتنا ظاہر ہو رہا ہے بلکہ ضروری ہے کہ ایک دن ایسا آئے جس میں گنہگار اور نیکو کار دونوں اپنے اپنے اعمال کا بدلہ پائیں اور اس دنیا کی خلقت میں جو عظیم حکمت پوشیدہ ہے وہ ظاہر ہو۔ فلسفہ کائنات : آسمان و زمین کی خلقت اور رات اور دن کی آمد و شد میں جو نشانیاں ہیں ان کی طرف یہاں صرف اجمالی اشارہ ہے۔ ان کی تفصیل پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہے۔ قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ گوناگوں پہلوؤں سے آفاق کی ان نشانیوں کو نمایاں کیا ہے جو شہادت دیتی ہیں کہ اس کائنات کے پیچھے صرف ایک عظیم طاقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عظیم حکمت بھی ہے، صرف بےپناہ قدرت ہی نہیں بلکہ بےپایاں رافت و رحمت بھی ہے۔ صرف بےاندازہ کثرت ہی نہیں ہے بلکہ اس کثرت کے اندر نہایت حیرت انگیز توافق و توازن بھی ہے۔ یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ اس دنیا کا پیدا ہونا نہ تو کوئی اتفاق سانحہ ہے نہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے بلکہ یہ ایک قدیر و حکیم، عزیز و غفور اور سمیع وعلیم کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ اس وجہ سے یہ بات اس کی فطرت کے خلاف ہے کہ خیر و شر اور نیک و بد کے درمیان اتمیاز کے بغیر یوں ہی چلتی رہے یا یوں ہی تمام ہوجائے۔ اگر ایسا ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تو اس کا کوئی خالق ومالک ہی نہیں ہے، یہ آپ سے آپ کہیں سے آ دھمکی ہے اور اسی طرح چلتی رہے گی یا یہ کہ نعوذ باللہ اس کا خالق کوئی کھلنڈرے مزاج کا ہے جو کسی کو گداگر، کسی کو تونگر، کسی کو ظالم اور کسی کو مظلوم بنا کر اس کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں اس قدرت اور اس حکمت کے بالکل منافی ہیں جن کی شہادت اس کائنات کے گوشے گوشے سے مل رہی ہے۔ ایسی علیم و حکیم ہستی کی شان علم و حکمت کے یہ بات بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بےحکمت کام کرے۔ اس طرح اس کائنات کی قدرت و حکمت پر غور کرنے والا شخص نہ صرف خدا تک بلکہ اقرار آخرت تک خود پہنچ جاتا ہے اور جس کا ذہن اس حقیقت تک پہنچ جائے گا ظاہر ہے کہ جزا و سزا کے تصور سے اس کا دل کا نپ اٹھے گا اور اس کے اندر شدید داعیہ اس بات کے لیے پیدا ہوگا کہ وہ اس عذاب اور اس رسوائی سے پناہ مانگے جو ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو اس دنیا کو بس ایک کھلنڈرے کا کھیل سمجھتے رہے اور اس طرح انہوں نے اپنی ساری زندگی بالکل بطالت میں گزار دی۔ چند نکات :۔ یہ ان آیات کا سیدھا سادا مطلب ہوا۔ ان پر مزید غور کیجیے تو چند اور باتیں بھی سامنے آئیں گی اور وہ بھی نہایت قیمتی ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کے نزدیک اولو الالباب صرف وہ لوگ ہیں جو اس کائنات کے نظام پر غور کر کے خدا کے ذکر اور آخرت کی فکر تک رہنمائی حاصل کریں۔ جن کو یہ چیز حاصل نہیں ہوئی وہ اگرچہ آسمان و زمین کی تمام مسافت ناپ ڈالیں اور چاند و مریخ تک سفر کر آئیں لیکن وہ اولو الالباب نہیں ہیں۔ ان کے سروں پر کھوپڑیاں تو ہیں لیکن ان کے اندر مغز نہیں ہے۔ اگر ان کے اندر مغز ہوتا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ انہیں سب کچھ نظر آجاتا اور یہ تل کی اوٹ میں چھپا ہوا پہاڑ نظر نہ آتا۔ دوسری یہ کہ جہاں تک خدا کا تعلق ہے وہ فکر و نطر کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اس کائنات کی بدیہی حقیقت بلکہ ابدہ البدیہیات ہے۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی منادی کر رہا ہے۔ ہماری فطرت اس کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان کے اندر اگر عقل سلیم ہو تو وہ خدا کو اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح سلیم آنکھ سورج کو دیکھتی ہے۔ خدا کو پانے کے لیے یہ کافی ہے کہ انسان اس کو یاد رکھے۔ البتہ آخرت کا معاملہ تفکر و تدبر کا محتاج ہے۔ تیسری یہ کہ جہاں تک ذکر الٰہی کا تعلق ہے وہ ہر حال میں مطلوب ہے۔ اس کے لیے قیام و قعود، نرمی و گرمی اور صبح و مسا کی کوئی قید نہیں ہے۔ انسان کی مادی زندگی کے بقا کے لیے جس طرح سانس کی آمد و شد ضروری ہے اسی طرح اس کی روحانی زندگی کے بقا کے لیے اللہ کی یاد ضروری ہے اور قرآن کی زیر بحث آیات سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اولو الالباب کی خاص صفت یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ چوتھی یہ کہ دین میں جس طرح ذکر مطلوب ہے اسی طرح فکر بھی مطلوب ہے۔ اگر ذکر ہو اور فکر نہ ہو تو بسا اوقات یہ ذکر صرف زبان کا ایک شغل بن کے رہ جاتا ہے۔ اس سے معرفت کے دروازے نہیں کھلتے۔ اولوالالباب کے ذکر کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اس کے اتھ فکر بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے قدم درجہ بدرجہ حکمت و معرفت میں راسخ ہوتے جاتے ہیں اس لیے کہ یہی فکر، آخرت کے یقین کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ پانچویں یہ کہ اس کائنات میں تفکر سے جس طرح اولوالالباب اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہے اس وجہ سے ایک روز عدل کا ظہور ضروری ہے اسی طرح یہ حقیقت بھی ان پر واضح ہوجاتی ہے کہ اس دن حقیقی رسوائی سے وہ لوگ دو چار ہوں گے جو جھوٹی شفاعتوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اس لیے کہ اس دن ایسے بدقسمتوں کا کوئی بھی مددگار نہ ہوگا۔
Top