Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْحَيُّ : ہمشہ زندہ الْقَيُّوْمُ : سنبھالنے والا
اللہ ہی معبود ہے، نہیں کوئی معبود مگر وہی، زندہ اور قائم رکھنے والا۔
اس آیت میں جو اسمائے حسنی مذکور ہیں سب کی تحقیق گزر چکی ہے۔ بعض کی تفسیر سورة فاتحہ میں، بعض کی سورة بقرہ میں۔ صفاتِ حیات و قیومیت کے اسرار و مقتضیات : یہ امر، جیسا کہ ہم تمہید میں اشارہ کرچکے ہیں، ملحوظ رہے کہ اس سورة میں استدلال بیشتر صفاتِ الٰہی سے ہے۔ صفات الٰہی میں سب سے پہلے صفات حیات و قیومیت کو لیا ہے۔ ان دونوں صفتوں کے اسرار و حقائق پر ہم آیت الکرسی کے اسرار و حقائق کے ضمن میں گفتگو کرچکے ہیں۔ یہاں ان کا اعادہ باعث طوالت ہوگا۔ یہاں موقع کلام کی مناسبت سے ان صفات کا حوالہ کتاب الٰہی کی ضرورت کے اثبات کے پہلو سے ہے۔ چناچہ بعد کی آیات سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہورہا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ایک زندہ خدا ہے تو ناگزیر ہے کہ وہ سب کچھ دیکھتا سنتا ہے، ہماری دعائیں، فریادیں اس تک پہنچتی ہیں ہمارے اعمال و افعال اس کی نظر میں ہیں۔ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ہماری دعائیں اپنی حکمت کے مطابق قبول فرماتا ہے اور ہمارے اعمال پر وہ ایک دن جزا اور سزا بھی دے گا۔ پھر ایک قدم اور آگے بڑھ کر اس سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ بندے اپنی زندگی میں وہ رویہ اختیار کریں جو اسے پسند ہو۔ یہ چیز اس بات کی مقتضی ہے کہ بندوں میں اس بات کی جستجو ہو کہ کون سے اعمال خدا کو پسند ہیں، کون سے ناپسند، تاکہ وہ اس کی اطاعت وہ ہدایت کی راہ اختیار کر کے سعادت کا مقام حاصل کرسکیں اور حقیق زندگی کے چشمہ حیواں سے فیضیاب ہوسکیں۔۔ اہل کتاب ”خداوند خدا، زندہ خدا“ کی تعبیر سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ ان کے انبیا کے صحیفوں میں بکثرت یہ تعبیر استعمال ہوئی ہے۔ جہاں کہیں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کے علم اور اس کی غیرت کا اظہار ہوا ہے بالعموم اس کے لیے ”زندہ خداوند“ ہی کی تعبیر استعمال ہوئی۔ نصاری اگرچہ اپنے زعم کے مطابق ایک مصلوب خدا کی پرستش کرتے ہیں لیکن وہ بھی ”زندہ خدا“ کی تعبیر سے نا آشنا نہیں تھے۔ اس وجہ سے یہ بات بداہۃً ان کے خلاف جاتی ہے کہ ایک طرف تو وہ زندہ خدا کا تصور رکھتے ہیں اور دوسری طرف اس کا مصلوب ہونا بھی مانتے ہیں۔ اسی طرح ”قیوم“ کی صفت بھی انبیا کے صحیفوں میں بار بار مذکور ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قیوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اللہ ہی کے حکم اور اسی قدرت سے قائم ہے۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کی ان بدیہی صفات میں سے ہے جن پر عقلاً بھی ایمان لانا ضروری ہے اور انبیاء کے صحیفوں کی رو سے بھی۔ نصاری بھی ان صحیفوں پر ایمان کے مدعی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ حضرت مسیح ؑ کی الوہیت کے قائل ہیں۔ اگر ان سے یہ سوال کیا جائے کہ جب تم خود اقرار کرتے ہو کہ حضرت مسیح بھوک پیاس محسوس کرتے تھے، غذا اور پانی کے محتاج تھے، بغیر ان چیزوں کے وہ اپنی ہستی کو قائم رکھنے پر قادر نہ تھے تو پھر وہ خدا کس طرح ہوئے، جب کہ خدا کے لیے تمہارے اپنے انبیاء کے ارشاد کے بموجب قیوم ہونا ضروری ہے ؟ یا یہ سوال کیا جائے کہ جب تمہاری اپنی انجیلوں سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح مصائب و شدائد پیش انے پرو روئے، ان کا دل تنگ ہوا اور سولی پر انہوں نے فریاد کی تو پھر وہ آسمان و زمین کے تھامنے والے اور قائم رکھنے والے کیسے ہوسکتے ہیں ؟ تو ان سوالوں کے جواب میں ان کے پاس ضد اور کٹ حجتی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔ یہاں قیوم کی صفت کا حوالہ اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قیوم ہونے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ ہمیں ہدایت بخشے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ واحد، ہمارا پروردگار، جس طرح ہمارا پیدا کرنے والا اور ہمیں زندگی بخشنے والا ہے اسی طرح وہ، جیسا کہ آیت الکرسی میں ارشاد ہوا، اپنی خلق کو قائم رکھنے والا بھی ہے اور اس کے لیے اس نے ہر قسم کے اسباب ووسائل پیدا کیے ہیں۔ پھر جب اس نے ہماری معیشت کے لیے یہ کچھ سامان کیے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ہماری اجتماعی زندگی کے لیے وہ چیز نہ دے جو ہمارے قیام و بقا کی ضامن ہوسکے در آنحالیکہ یہ چیز ہماری خلقت کی اصل غایت ہے۔ چناچہ یہی چیز قیام عدل و قسط کی اصل اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرائع و احکام کے نزول کی بنیاد بنی اس لیے کہ اس کے بغیر فطرتِ انسانی ارتقا کے اس درجے کو حاصل نہیں کرسکتی تھی جو اس کے وجود کے اندر مضمر ہے۔۔ یہ قیومیت اس بات کی بھی مقتضی ہوئی کہ خدائے قیوم و کارساز اس امر کی بھی نگرانی رکھے کہ جب بندے اپنی خود مختاری اور سرکشی سے کام لے کر اس کے نظام عدل کو بالکل مٹا دینے کی کوشش کریں۔ چناچہ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ خاتم الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے تک اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عدل و حق اور اپنی سیدھی راہ پر استوار رکھنے کے لیے اپنے بیشمار نبی اور رسول بھیجے اور خاتم الانبیا پر دین کی تکمیل کردینے اور کتاب الٰہی کو ہر قسم کی دست اندازیوں سے محفوظ کردینے کے بعد اس مقصد کے لیے یہ اہتمام فرمایا کہ ہر دور میں اس امت کے اندر ایک ایسا گروہ، خواہ وہ کتنا ہی قلیل التعداد ہو، پیدا ہوتا رہے گا جو خود حق وعدل پر قائم اور دوسروں کو اس عدل و حق کے قائم کرنے کی دعوت دیتا رہے گا۔ اس حقیقت کی وضاحت حدیثوں میں بھی ہوئی ہے اور اس کی طرف بعض لطیف اشارات اس سورة میں بھی آ رہے ہیں جن کی طرف ہم آگے انشاء اللہ موزوں مقامات میں توجہ دلائیں گے۔
Top