Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 23
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُدْعَوْنَ : بلائیے جاتے ہیں اِلٰى : طرف كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کرے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر يَتَوَلّٰى : پھرجاتا ہے فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان سے وَھُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
ذرا ان کو تو دیکھو جن کو کتاب الٰہی کا ایک حصہ عطا ہوا، ان کو اللہ کی کتاب ہی کی طرف دعوت دی جا رہی ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، پھر ان کا ایک گروہ منہ پھیر لیتا ہے اور یہ منہ پھیر لینے ہی والے لوگ ہیں۔
”اَلَمْ تَرَ“ کے خطاب کی نوعیت : ”اَلَمْ تَرَ“ کے خطاب پر ہم سورة بقرہ میں لکھ چکے ہیں۔ ہر جگہ اس کو واحد کے معنی میں لینا صحیح نہیں ہے، اس کا خطاب جماعت سے بھی ہوتا ہے، گویا فرداً فرداً جماعت کا ہر فرد مخاطب ہوتا ہے۔ پھر یہ محض ایک سادہ خطاب ہی نہیں ہے بلکہ یہ فی الجملہ اظہار تعجب کا مفہوم بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ ”نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ“ سے مراد تورات اور انجیل وغیرہ ہیں اور کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید ہے۔ جس طرح پچھلے آسمانی مذاہب اور شریعت اسلامی میں نسبت جز اور کل کی ہے اسی طرح دوسرے آسمانی صحیفوں اور قرآن میں بھی نسبت جز اور کل کی ہے۔ اللہ کی شریعت انسانی ذہن اور انسانی معاشرہ کے تدریجی ارتقا کے لحاظ سے درجہ بدرجہ عطا ہوئی ہے۔ جب تک انسان، کامل شریعت اور کامل کتاب کا اہل نہیں ہوا تھا اس وقت تک اس کو کامل شریعت اور کامل کتاب نہیں دی گئی بلکہ اس کے حالات اور اس کی ضروریات کے مطابق کتاب دی گئی لیکن یہ کتاب اصلاً اس کامل شریعت اور اس کامل کتاب ہی کا ایک حصہ تھی جو اس کے لیے پہلے سے خدا کی اسکیم میں مقرر تھی۔ انبیائے بنی اسرائیل نے جو تعلیم دی وہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم سے کوئی الگ چیز نہیں بلکہ اسی تعلیم کا اتنا حصہ تھا جو ان کے دور اور ان کے حالات کے لیے موزوں تھا، اسی طرح تورات اور انجیل قرآن مجید سے کوئی الگ چیز نہیں ہیں بلکہ اسی صحیفہ کامل کے یہ وہ اوراق تھے جو آخری امت سے پہلے کی امتوں کے لیے نازل ہوئے۔ اس طرح گویا تمام آسمانی کتابیں ایک ہی کتاب الٰہی کے مختلف حصے اور مختلف ابوب کی حیثیت رکھتی ہیں، اصلاً اور فطرتاً ان میں کامل ہم آہنگی و ہم رنگی ہے۔ اگر تورات اور انجیل میں ملاوٹ اور تحریف نہ واقع ہوئی ہوتی تو ان کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں اجمال و تفصیل اور آغاز و تکمیل کے سوا کوئی فرق نظر نہ آتا تاہم آج بھی ایک صاحب نظر آسانی سے یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ سب صحیفے ایک ہی مشکوۃ علم و معرفت کے انوار اور ایک ہی شجرہ طوبی کے برگ و بار ہیں۔ اس باہمی یک رنگی کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے جو تورات وانجیل کو جانتے اور مانتے ہوں قرآن کا پہچاننا کچھ مشکل نہ تھا بشرطیکہ انہوں نے اپنی آنکھوں پر تعصب اور ضد کی پٹیاں نہ باندھ رکھی ہوتیں۔ جس کتاب کے ابتدائی ابواب انہوں نے پڑھے ہوں، جس کے انداز، اسلوب اور مزاج سے آشنا ہوں، جس کی ہدایات وتعلیمات کا ابتدائی عکس اور خاکہ انہوں نے دیکھا ہو، جس کی پیشین گوئیوں سے وہ باخبر اور ان کے مصداق کے وہ منتظر ہوں، یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ کتاب عزیز جب اپنے اصلی جمال و کمال کے روپ میں نمایاں ہو تو وہ اس کو نہ پہچان سکیں۔ پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اہل کتاب نے اس سے منہ موڑا اور جان کر اس سے منہ موڑا اور جان کر اس سے انجان بن گئے۔ ”لِيَحْكُمَ بَيْنَھُمْ“ یہ قرآن کا وہ مقصد بیان ہوا جو اہل کتاب کو، اگر وہ اللہ کی شریعت کے قدر دان ہوتے تو بہت عزیز ہونا تھا۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل اتاری تھیں لیکن انہوں نے ان میں بہت سے اختلافات پیدا کردیے اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو فرقان بنا کر اتارا تاکہ یہ تمام اختلافات کا فیصلہ کر کے اصل حق کو پھر واضح کردے۔ اسی بات کو یہاں پھر دہرایا ہے کہ اس کتاب کی طرف جو ان کو بلایا جا رہا ہے تو اس لیے نہیں کہ اس میں بلانے والے کا کوئی فائدہ ہے بلکہ سر تا سر انہی کا فائدہ ہے۔ ان کو اس لیے بلایا جا رہا ہے کہ خدا کی شریعت میں انہوں نے جو اختلافات پیدا کردیے ہیں وہ رفع ہوں اور جو ہدایت انہوں نے گم کردی تھی اس سے پھر بہرہ مند ہوں۔ ”ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ“ ’ ثم ‘ یہاں استعجاب کے مفہوم میں ہے اور ”فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ“ سے مقصود یہ ظاہر کرنا نہیں ہے کہ اہل کتاب کا ایک قلیل گروہ اس کتاب الٰہی سے منہ موڑ رہا ہے، اس لیے کہ اس جرم کے مرتکب تو اہل کتاب من حیث الجماعت ہوئے تھے، ان کے اندر سے صرف تھوڑے سے لوگ نکلے، جیسا کہ قرآن کے دوسرے مقامات سے واضح ہے، جو اسلام لانے والے بنے، بلکہ اس میں اصلی زور ’ منہم ‘ کے لفظ پر ہے یعنی تعجب کا اظہار اس بات پر ہے کہ یہ منہ مورنے والا گروہ ان اہل کتاب کا ہے جو سب سے زیادہ سزاوار اس بات کے تھے کہ سب سے پہلے اس پر ایمان لانے والے بنتے لیکن وہ ایمان کی راہ میں سبقت کرنے کے بجائے کفر کی راہ میں سبقت کرنے والے بنے۔ آخر میں ”وھم معرضون“ سے اہل کتاب کے اصل جماعتی مزاج پر روشنی ڈال دی کہ حق سے ان کا یہ اعراض کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے ان کی روش ہی یہی رہی ہے۔ اس فقرے میں اہل کتاب کے لیے سخت ملامت کا پہلو بھی ہے اور نبی ﷺ کے لیے تسکین و تسلی کا بھی۔ مطلب یہ ہے کہ حق سے اعراض جن کی فطرت ثانیہ اور جن کا قومی مزاج بن چکا ہو ان کے دل میں اگر حق نہیں اترتا تو اس میں قصور تمہارا یا حق کا نہیں ہے بلکہ ان کے فسادِ مزاج کا ہے۔ پتھر میں جونک کہاں لگی ہے !۔ جو لوگ بنی اسرائیل کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ سے لے کر سیدنا مسیح ؑ تک بلا استثنا ہر پیغمبر نے ان کے مزاج پر ماتم کیا ہے۔ اگر طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم انبیائے بنی اسرائیل کے صحیفوں سے اس کی مثالیں پیش کرتے۔
Top