Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 25
فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ١۫ وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
فَكَيْفَ : سو کیا اِذَا : جب جَمَعْنٰھُمْ : انہیں ہم جمع کرینگے لِيَوْمٍ : اس دن لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَوُفِّيَتْ : پورا پائے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : حق تلفی نہ ہوگی
اس وقت کیا ہوگا جب ہم ان کو ایک ایسے دن کے لیے اکٹھا کریں گے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے اور ہر جان کو جو اس نے کمائی کی ہوگی پوری کی جائے گی، ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
یعنی یہ تو یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور آخرت سے متعلق یہ لذیذ خواب دیکھ رہے ہیں لیکن اس وقت کیا بنے گا جب ہم ان کو ایک ایسے یوم الفصل کے احوال و نتائج دیکھنے کے لیے جمع کریں گے جو اس کائنات کی ایک اٹل حقیقت اور جس کے پیش آنے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ؟ ہمارے نزدیک لام یہاں ’ فی ‘ کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے، اس لیے کہ اس کے اندر ظرفیت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ یہاں حرف جر کے بعد ایک مضاف محذوف مان لیا جائے۔ ہم نے اسی دوسرے پہلو کو سامنے رکھ کر آیت کی وضاحت کی ہے۔ اس دن کی ایک خصوصیت تو یہ بیان ہوئی کہ اس کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے دوسری یہ کہ اس دن ہر نفس کو اس کی کمائی پوری کی جائے گی، کسی کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ اب یہ اہل کتاب خود سوچ لیں کہ آج ایک من گھڑت عقیدے میں مبتلا ہو کر یہ جس خواب خوش کے مزے لے رہے ہیں اس سے بیدار ہونے کے بعد انہیں کس حقیقت سے دو چار ہونا ہے۔
Top