Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
دعا کرو، اے اللہ، بادشاہی کے مالک، تو ہی جس کو چاہے بادشاہی دے، جس سے چاہے بادشاہی چھینے اور تو ہی جس کو چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں خیر ہے۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم بشارت دعا کے اسلوب میں۔ یہ آنحضرت ﷺ کو اور آپ کے واسطے سے پوری امت کو ایک دعا کی تلقین کی گئی ہے جو مندرجہ ذیل امور پر مشتمل ہے۔ 1۔ پہلی چیز وہ عظیم بشارت ہے جو اس امت کے لیے اس کے اندر مضمر ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ یہ دعا در پردہ اشارہ کر رہی ہے کہ اہل کتاب کی ضد اور ان کے حسد کے علی الرغم امامت و سیادت کا وہ منصب جس پر بنی اسرائیل اب تک فائز رہے ہیں اب وہ بنی اسمعیل کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور بنی اسرائیل کی کوئی مخالفت خدا کے اس فیصلہ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ اپنے ملک کا مالک خدا ہے، جس کو چاہے وہ ملک بخشے اور جس سے چاہے چھین لے، جس کو چاہے عزت دے، جس کو چاہے ذلت دے، خیر کے تمام خزانوں کا مالک وہی ہے۔ بنی اسرائیل یہ جو سمجھتے رہے ہیں کہ تمام خیر کے وارثو مورث وہی ہیں، کسی اور کے لیے، خاص کر بنی اسمعیل کے لیے، اس خیر میں کوئی حصہ نہیں ہے، اس دعا نے ان کے اس خیال باطل کی بساط الٹ دی۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ اب مالک کائنات نے اس خزانہ خیر کی کنجیاں بد عہدوں اور خائنوں سے چھین کر ان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا جو اس امانت کے اہل ہیں۔ 2۔ اس بشارت کے ساتھ اس میں بنی اسرائیل کے لیے انذار بھی ہے اور یہ انذار درحقیقت مذکورہ بالا بشارت ہی کا قدرتی نتیجہ ہے، جب سیادت بنی اسمعیل کو حاصل ہوگی تو لازما اس سیادت سے بنی اسرائیل محروم ہوں، جب بنی اسماعیل عزت سے سرفراز ہوں گے تو لازماً بنی اسرائیل کے لیے ذلت مقدور ہوچکی ہے۔ نصب و عزل، عزت و ذلت اور حیات و موت دونوں کا ذکر کے قرآن نے اپنے مخالفین اور موافقین دونوں کے لیے تقدیر کا فیصلہ سنا دیا۔ 3۔ اس میں اس امت کے لیے ایک عظیم نصیحت بھی ہے کہ اب یہ امانت جو تمہاری طرف منتقل ہو رہی ہے تو یہود کی طرح یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ یہ تمہارے استحقاق ذاتی کا کرشمہ یا تمہارے حسب و نسب کا ثمرہ ہے بلکہ یہ سرتا سر خدا کا فصل ہے جس کے تم اس وقت سزاوار قرار پاؤ گے جب تک اس کا حق ادا کرتے اور اس کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے معاملہ میں برابر خدا سے دعا کرتے رہو گے۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ آیت در حقیقت یہود کے عزل کا اعلان اور امت مسلمہ کے نصبت کی بشارت ہے، لیکن بات بجائے خیر اور بشارت کے دعا کے اسلوب میں کہی گئی ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان آیات کے نزول کے وقت تک حالات ابھی پردے میں تھے اور جو چیز پردے میں ہو اس کے متعلق یہی اسلوب موزوں ہے کہ امت اس کے لیے دعا کرے، اور دوسری یہ کہ اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ امت اس بشارت کو فخر اور غرور کے ساتھ نہ قبول کرے بلکہ تواضع، تذلل، احساس عبدیت اور دعا کے ساتھ قبول کرے اس لیے کہ سارا اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، جو محروم ہوتا ہے وہ بھی خدا ہی کے حکم سے محروم ہوتا ہے اور جو پاتا ہے وہ بھی خدا ہی کے ہاتھ سے پاتا ہے۔ بشارت کے دعائیہ اسلوب میں ظاہر ہونے کی بعض اور نہایت بلیغ مثالیں بھی قرآن میں موجود ہیں مثلاً ہجرت کے حکم سے ذرا پہلے نبی ﷺ کو یہ دعا سکھائی گئی ”وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا (80) وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (81): اور دعا کرو کہ اے رب مجھے داخل کر عزت کے ساتھ اور مجھے نکال عزت کے ساتھ اور مجھے خاص اپنے پاس سے نصر کا پروانہ عطا فرما اور یہ اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوا اور باطل نابود ہونے ہی کے لیے ہے“ (بنی اسرائیل :80-81)۔ اس دعا میں ہجرت کی خیر بھی ہے اور ساتھ ہی اس بات کی بشارت بھی کہ آپ کا مکہ سے نکلنا اور دار الہجرت میں داخل ہونا دونوں عزت کے ساتھ ہوگا اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کے لیے خاص بدرقہ اور نصرت کا خاص پروانہ عطا ہوگا بلکہ اس میں ایک لطیف بشارت اس بات کی بھی ہے کہ آپ کے پروقار داخلہ کا انتظام آپ کے نکلنے سے پہلے ہی ہوچکا ہے۔ اس کا اشارہ اس بات سے ہورہا ہے کہ دعا میں داخل ہونے کا ذکر نکلنے کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے بلکہ زیادہ تدبر سے کام لیجیے تو یہ بات بھی آیت سے نکلتی ہے کہ ہجرت در حقیقت فتح کا دیباچہ اور غلبہ حق کا مقدمہ ہے۔ لیکن ان تمام باتون خبر اور بشارت کے اسلوب میں کہنے کے بجائے دعا کے اسلوب میں کہا گیا ہے اور اس میں حکمت وہی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے۔
Top