Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 60
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ
اَلْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : آپ کا رب فَلَا تَكُنْ : پس نہ ہو مِّنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
یہی بات تمہارے رب کی طرف سے حق ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو۔
گویا بحث اتمام حجت کے آخری نقطہ پر پہنچ گئی اس وجہ سے قرآن نے یہ کہہ کر کہ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ الایۃ، مزید بحث و گفتگو کا دروازہ بند کردیا۔ اس جملے میں ہمارے نزدیک مبتدا محذوف ہے اور یہ بات ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ جب مبتدا کو حذف کرتے ہیں تو اس سے مقصود مخاطب کی ساری توجہ خبر پر مرکوز کرانی ہوتی ہے۔ یعنی حضرت مسیح سے متعلق اصل حقیقت یہی ہے جو قرآن نے واضح کردی ہے، باقی جو کچھ ہے وہ سب نصاری کی افسانہ طرازی ہے۔ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ میں ظاہر خطاب اگرچہ پیغمبر ﷺ ہے لیکن اس طرح کے مواقع میں، جیسا کہ ہم ایک سے زیادہ مواقع میں واضح کرچکے ہیں، روئے سخن پیغمبر کی طرف نہیں بلکہ امت کی طرف ہوتا ہے اور اگر اس میں کوئی عتاب مضمر ہوتا ہے تو اس کا تعلق درحقیقت مخالفین سے ہوتا ہے۔ لیکن وہ لائقِ خطاب نہیں رہ جاتے اس وجہ سے ان کے بجائے اپنوں کو خطاب کر کے بات کہہ دی جاتی ہے۔
Top