Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 71
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَلْبِسُوْنَ : تم ملاتے ہو الْحَقَّ : سچ بِالْبَاطِلِ : جھوٹ وَتَكْتُمُوْنَ : اور تم چھپاتے ہو الْحَقَّ : حق وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ھو
اے اہل کتاب تم کیوں حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو در آنحالیکہ تم جانتے ہو۔
حق اور باطل کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کرنے کی وضاحت سورة بقرہ کی تفسیر میں اچھی طرح ہوچکی ہے۔ یہود نے یوں تو پوری تورات کو اپنی تحریفات سے مسخ کر ڈالا تھا جس کے سبب سے حق و باطل کا امتیاز مشکل ہوگیا تھا لیکن یہاں خاص طور پر ان کی ان تحریفات کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل اور تعمیر بیت اللہ سے متعلق حالات و واقعات اور آنحضرت ﷺ کی پیشین گوئیوں کے اندر کی تھیں۔ ان تحریفات کا مقصد یہ تھا کہ حضرت ابراہیم کا تعلق مکہ اور بیت اللہ سے اس طرح کاٹ دیا جائے کہ آنحضرت ﷺ کے متعلق انبیا کے بیان کردہ حقائق پر پردہ ڈالا جاسکے۔ قرآن کے الفاظ ”وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ“ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ نزول قرآن کے علمائے یہود بھی ان تحریفات سے واقف تھے اور فی الواقع ان تحریفات کی نوعیت ہے ہی ایسی کہ بادنی تامل ان پر گرفت کی جاسکتی ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث یہود کے عوام کا کردار نہیں بلکہ ان کے علماء کا کردار ہے۔ سیاق وسباق اور آیت کے الفاظ اس پر دلیل ہیں۔ اگلی آیات کا مضمون۔ آیت 72-76: یہود کی بعض شرارتیں : آگے اہل کتاب، بالخصوص یہود کی بعض سازشوں اور شرارتوں کا ذکر کیا ہے جن کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیریں۔ پھر اس گہرے بغض و حسد کا پتہ دیا ہے جو بنی اسرائیل کے اندر بنی اسماعیل کے خلاف تھا جس کے سبب سے وہ کسی طرح بھی اس بات کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ بنی اسماعیل بھی ان کی طرح کتاب و شریعت کے حامل سمجھے جائیں اور اللہ کے ہاں ان کے جرائم کے گواہ بنیں۔ گویا اس جوش عداوت میں خدا کے فضل کے اجارہ دار وہ خود بن بیٹھے تھے کہ جس کو چاہیں اس میں سے حصہ دیں اور جس کو چاہیں محروم کردیں۔ اس عداوت و حسد نے بنی اسماعیل کے خلاف بنی اسرائیل کے مجموعی باخلاق و کردار کو ایک خاص سانچے میں ڈھال دیا تھا۔ وہ ان کے معاملے میں کسی اخلاقی و شرعی ضابطے کی پابندی کے قائل نہیں تھے۔ ان کی رکھی ہوئی امانتوں میں خیانت کرنا وہ ثواب سمجھتے تھے کہ یہ کافر کا مال ہے، اس کو دبا بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن نے ان باتوں کا حوالہ اس لیے دیا کہ مسلمانوں کو متنبہ کرے کہ جن کا حسد اور بغض تمہارے خلاف اس حد تک بڑھا ہوا ہے ان سے یہ توقع نہ رکھو کہ ان کا کوئی مشورہ تمہارے لیے خیر خواہانہ ہوسکتا ہے اور تمہارے حق میں ان کی زبان سے کوئی سچی بات نکل سکتی ہے۔ یہ تو تمہارے ایک پیسے کی بھی چوری کرسکتے ہیں، پھر ان سے یہ توقع کیسے رکھتے ہو کہ یہ تمہاری ایک لاکھ کی امانت ادا کردیں گے اور تمہارے نبی کے بارے میں اس حق کی شہادت دیں گے جس کے وہ امین بنائے گئے تھے۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔
Top