Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 72
وَ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَۚۖ
وَقَالَتْ : اور کہا طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمِنُوْا : تم مان لو بِالَّذِيْٓ : جو کچھ اُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مسلمان) وَجْهَ النَّهَارِ : اول حصہ دن وَاكْفُرُوْٓا : اور منکر ہوجاؤ اٰخِرَهٗ : اس کا آخر (شام) لَعَلَّھُمْ : شاید وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ پھرجائیں
اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمانوں پر جو چیز نازل کی گئی ہے اس پر صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو اس کا انکار کردیا کرو تاکہ وہ بھی اس سے برگشتہ ہوں۔
اہل کتاب کی اس سازش کا ذکر کرتے ہوئے قرآن نے اس بات کی تصریح فرما دی ہے کہ یہ ان کے ایک مخصوص گروہ کی سازش ہے۔ یہ تصریح اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اپنے مخالفین کے جرائم بیان کرتے ہوئے بھی حق و انصاف کے حدود سے سرِ مو تجاوز نہیں کرتا۔ اگر ایک جرم مخالف گروہ کی کسی مخصوص پارٹی ہی کا جرم ہے تو وہ اس کی ذمہ داری اسی پارٹی پر ڈالتا ہے، یہ نہیں کرتا کہ چند کی شرارت کی ذمہ داری مخالفت کے جوش میں پورہ قوم پر اڑھا دے۔ بہ انصاف پسندی صداقت کے عام نصب العین سے قطع نظرت دعوت حق کے نقطہ نظر سے بھی نہایت بابرکت اور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ آگے اس کی بعض نہایت موثر مثالیں آرہی ہیں۔ منافقانہ شرارت کی ایک خاص قسم : یہاں جس شرارت کا ذکر ہے وہ منافقانہ شرارت کی ایک مخصوص قسم ہے۔ وہ یہ کہ اپنے حریف کے سامنے اپنے آپ کو اس کا دوست اور ساتھی ظاہر کر کے اندر سے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ یہود نے اپنے اس منصوبے کے تحت جو مختلف قسم کی چالیں چلیں، ان میں سے ایک چال یہ بھی تھی کہ ان کے لیڈروں نے اپنے کچھ آدمیوں کو اس بات کے لیے تیار کیا کہ وہ پہلے اپنے ایمان و اسلام کا اظہار و اعلان کر کے مسلمانوں کے اندر شامل ہوں، پھر اسلام کی کچھ خرابیوں کا اظہار کر کے اس سے علیحدگی اختیار کرلیا کریں۔ اس کا فائدہ انہوں نے ایک تو یہ سوچا ہوگا کہ اس طرح بہت سے جدید العہد مسلمانوں کا اعتماد اسلام پر سے متزلزل ہوجائے گا۔ وہ یہ سوچنے لگیں گے کہ فی الواقع اسلام میں کوئی کر ابی ہے جس کے سب سے یہ پڑھے لکھے لوگ اسلام کے قریب آ کر اس سے بدک جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس تدبیر سے وہ خود اپنی قوم کے عوام کو اسلام کے اثر سے بچا لے جائیں گے۔ جب وہ یہ دیکھیں گے کہ ان کی اپنی قوم کے کچھ پڑھے لکھے لوگ اسلام کو آزما کر چھوڑ چکے ہیں تو ان کی وہ رغبت کمزور ہوجائے گی جو اسلام اور مسلمانوں کی کشش کے سبب سے ان کے اندر اسلام میں داخل ہونے کے لیے پیدا ہوتی تھی۔ اس ساش کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہود نے جب بھی کسی ملت کو اپنا نشانہ بنایا ہے اس کے لیے تدبیر یہی اختیار کی ہے کہ اس کے گھس کر اس کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ دین مسیحی کو بگاڑنے کے لیے پال نے جو کامیاب کوشش کی وہ مذاہب کی تاریخ کی ایک نہایت درد انگیز داستان ہے۔ پھر مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو مسخ کرنے کے لیے یہود و نصاریٰ دونوں نے جو فتنے خود ہمارے کتب خانوں میں بیٹھ کر ہمدردانہ بھیس میں اٹھائے ہیں، وہ بھی کوئی مخفی چیز نہیں ہے، اگر طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم یہاں بعض حقائق کی طرف اشارہ کرتے۔
Top