Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 76
بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
بَلٰي : کیوں نہیں ؟ مَنْ : جو اَوْفٰى : پورا کرے بِعَهْدِهٖ : اپنا اقرار وَاتَّقٰى : اور پرہیزگار رہے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
ہاں، جو لوگ اس کے عہد کو پورا کریں گے اور اللہ سے ڈریں گے تو بیشک اللہ اپنے سے ڈرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
اس آیت میں اور اس اسلوب پر جتنی بھی آیات ہیں سب میں جواب شرط محذوف ہوتا ہے۔ اس کی بعض مثالیں سورة بقرہ میں ہم پیش کرچکے ہیں۔ یہاں اگر جواب شرط کو واضح کیا جائے تو پوری بات یوں ہوگی کہ ہاں جو لوگ اللہ کے عہد کو پورا کریں اور حدود الٰہی کی حفاظت کریں تو وہ لوگ متقی ہیں اور اللہ متقین ہی کو دوست رکھتا ہے۔ اوپر والی باتوں پر استدراک : یہ آیت یہود کی اوپر والی باتوں پر استدراک کی حیثیت رکھتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ان کے لیے خدا کے ہاں کوئی خاص مرتبہ و مقام ہے جس کے سبب سے وہ دوسروں سے بالاتر اور امیوں کے معاملے میں ذمہ داریوں سے بری ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اللہ کے ہاں جو مرتبہ و مقام بھی ہے وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو خدا سے باندھے ہوئے عہد کو پورا کریں اور ہر طرح کے حالات میں اس عہد کے تحت قائم کردہ حدود کی نگہداشت کریں۔ جن لوگوں کی روش یہ ہوگی وہ اللہ کے نزدیک متقی ہیں اور اللہ ایسے ہی متقی بندوں کو دوست رکھتا ہے۔ جو لوگ خدا کے عہد اور اس کے حدود کو توڑنے میں بےباک ہیں اور اس کے باوجود تقوی اور محبوبِ الٰہی ہونے کے مدعی ہیں وہ محض خیالی پلاؤ پکا رہے ہیں۔ عام طور پر مترجمین قرآن نے اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ کا ترجمہ ”اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں“ کیا ہے میرے نزدیک ضمیر کا مرجع اللہ ہے۔ قرآن کے نظایر سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ آگے والی آیت ملاحظہ ہو۔ ابن جریر نے بھی یہی تاویل کی ہے۔ اگلی آیت 77 تا 80 کا مضمون : آگے کی آیات میں پہلے تو اہل کتاب کی اس عہد شکنی بلکہ عہد فروشی پر عتاب ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے ان کو اپنے کلام و پیام سے نوازا، ان کے لیے تعلیم و تزکیہ کا اہتمام فرمایا اور ان کو اپنی نگاہ لطف و کرم سے مشرف کیا لیکن انہوں نے دنیا کے حقیر مفادات کے بدلے میں اللہ کے عہد کو فروخت کیا اور اس کی بےپایاں عنایات کی نہایت بےدردی کے ساتھ ناقدری کی اس وجہ سے اب آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ باقی نہیں رہا۔ پھر ان کی بعض تحریفی کوششوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ نے جو کتاب انہیں ہدایت و رہنمائی کے لیے عطا فرمائی، انہوں نے اس میں توڑ موڑ اور لچک لچکا کر اس غرض کے لیے تصرفات کیے کہ جو چیز اللہ کی کتاب کی نہیں تھی وہ کتاب کی سمجھی جائے۔ پھر اہل کتاب بالخصوص نصاری کو دعوت دی ہے کہ وہ عقل سلیم کی روشنی میں غور کریں کہ آج جن باتوں کو وہ مسیح کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ باتیں وہ کتاب و حکمت اور نبوت کے حامل ہوتے ہوئے کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔ ارشاد ہے۔
Top