Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 8
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تُزِغْ : نہ پھیر قُلُوْبَنَا : ہمارے دل بَعْدَ : بعد اِذْ : جب ھَدَيْتَنَا : تونے ہمیں ہدایت دی وَھَبْ : اور عنایت فرما لَنَا : ہمیں مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس رَحْمَةً : رحمت اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو الْوَھَّابُ : سب سے بڑا دینے والا
اے ہمارے پروردگار ! ہمارے دلوں کو ہدایت بخشنے کے بعد کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت بخش، تو نہایت بخشنے والا ہے۔
تفسیر آیت 8۔ 9: ان دونوں آیتوں میں کوئی لغوی یا نحوی اشکال نہیں ہے۔ زیغ کے لفظ کی تحقیق اوپر گزر چکی ہے۔ یہ راسخین فی العلم کی دعا ہے جس سے اس امر کا اظہار ہورہا ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں اتنے بےپروا نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ شبہات اور شکوک کو بلاوے بھیج کر بلائیں اور اپنے ایمان و اسلام کو خطرے میں ڈالیں بلکہ وہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے برابر اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ دین میں ان کے جمے ہوئے قدم اکھڑنے نہ پائیں اور جب فتنوں کی یورش ہو تو خدائے وہاب اپنے پاس سے ان کے لیے وہ روحانی کمک بھیجے جو ان کے ثبات قدم کا ذریعہ بنے۔ دوسری آیت میں اس یقین کا اظہار ہے جو ان راسخین کے اندر آخرت کے باب میں ہوتا ہے۔ موقع کلام یہاں اشارہ کر رہا ہے کہ درحقیقت یہی یقین ہے جو دل اور عقل دونوں کا اصلی پاسبان ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان کے ذہن و فکرکو کوئی چیز بھی ہرزہ گردی سے نہیں روک سکتی۔ وہ زندگی کو ایک نہایت سہل بازی سمجھتا ہے اور ہر داؤ پر اس کو لگا دینے کے لیے تیار رہتا ہے لیکن جن کے اندر آخرت کا یقین رچا بسا ہوتا ہے وہ ہر قدم احتیاط کے ساتھ اٹھاتے اور نہایت پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ یہ احتیاط ان کو ہمیشہ جادہ مستقیم پر استوار رکھتی ہے۔
Top