Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 90
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : اپنے ایمان ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا : بڑھتے گئے كُفْرًا : کفر میں لَّنْ تُقْبَلَ : ہرگز نہ قبول کی جائے گی تَوْبَتُھُمْ : ان کی توبہ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ ھُمُ : وہ الضَّآلُّوْنَ : گمراہ
جن لوگوں نے کفر کیا اپنے ایمان کے بعد اور اپنے کفر میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوگی اور یہی لوگ اصلی گمراہ ہیں۔
تفسیر آیت 90 تا 91: ان لوگوں کا بیان جن کی توبہ قبول نہیں ہوتی : یہ ان لوگوں کا بیان ہے جن کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان تمام جرائم کا ارتکاب کرکے، جن کا ذکر اوپر ہوا، ایمان کے بعد کفر میں مبتلا ہوئے۔ پھر اس کفر پر ردے کے بعد ردے چڑھاتے چلے گئے۔ جب وقت آخر آیا تو زبان سے توبہ توبہ کرلی، نہ اپنے جرائم کی اصلاح کی، نہ اپنی حق پوشیوں کا پیغمبر اور اہل ایمان کے سامنے اظہار واعتراف کیا، نہ اللہ کی راہ میں انفاق اور پیغمبر کی حمایت و نصرت سے اپنے گناہ دھونے کی کوشش کی۔ بلکہ جیسا کہ قرآن میں اشارہ ہے، اس غلط آرزو میں مر گئے کہ سَیُغْفَرُ لَنَا، اللہ ہماری ساری غلطیوں کو معاف فرما دے گا۔ قرآن نے یہاں واضح فرما دیا کہ جو لوگ اس قسم کی طمع خام میں مبتلا ہیں، نہ ان کی یہ توبہ توبہ ہے، نہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی توبہ کو پذیرائی بخشے گا۔ اسی طرح کا معاملہ ان لوگوں کا ہے جو ایمان کے بعد کفر میں مبتلا ہوئے اور اسی حالت کفر میں مرگئے۔ فرمایا کہ اگر اس طرح کے لوگ زمین کے برابر سونا بھی اپنے آپ کو عذاب الٰہی سے بچانے کے لیے فدیہ میں دیں تو بھی قبول نہیں ہوگا۔ یہ اسلوبِ بیان محض ان کی نجات کے عدم امکان کی تعبیر کے لیے اختیار کیا گیا۔ ورنہ آخرت میں نہ کسی کے پاس فدیہ میں دینے کے لیے کچھ ہوگا، نہ آخرت اس قسم کے لین دین کی کوئی جگہ ہے۔ وَّمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ ، میں ان لوگوں کی اس طمع خام کی نفی ہے جو یہ اپنے بزرگ اسلاف کی شفاعت کی رکھتے تھے۔ فرمایا کہ آخرت میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ مضمون سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے۔ وہاں ہم نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ آیت ہم یہاں بھی نقل کیے دیتے ہیں تاکہ زیر بحث آیت کے بعض مضمرات روشنی میں آجائیں۔ فرمایا ہے ”إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللاعِنُونَ (159)إِلا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (160)إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (161) خَالِدِينَ فِيهَا لا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلا هُمْ يُنْظَرُونَ (162): بیشک جو لوگ ان واضح آیات اور اس ہدایت کو چھپاتے ہیں جو ہم نے اتاری ہے، بعد اس کے کہ ہم نے اس کو اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے اچھی طرح واضح کردیا ہے، وہی لوگ ہیں جن پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور ان پر لعنت کرنے والے بھی لعنت کریں گے۔ البتہ وہ لوگ اس سے مستثنے ہیں جو توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کریں اور کھول دیں چھپائی ہوئی باتوں کو۔ یہی لوگ ہیں جن کی توبہ میں قبول کروں گا اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔ بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور اسی حالت کفر میں مر گئے ان پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی لعنت ہے، اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کا عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو مہلت ہی دی جائے گی“ (بقرہ :159-162) اگلی آیات 92-99 کا مضمون : اوپر کا مضمون اگر ذہن میں موجود ہے تو آگے کا سلسلہ بیان سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ اوپر آیت 63 سے یہ بحث شروع ہوئی تھی کہ یہود اور نصاری ملت ابراہیم پر ہونے کا جو دعوی کرتے ہیں محض بےبنیاد دعوی ہے۔ ملتِ ابراہیم پر یہ پیغمبر اور ان کے ساتھی ہیں لیکن یہ یہود و نصاری طرح طرح کی سازشوں اور تحریفوں سے اصل حقائق پر پردہ ڈالنا اور خلق کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں کہ قربانی کوئی نہ دینی پڑے۔ بس دینداری کی چند جھوٹی سچی رسمیں ادا کر کے خدا کی وفا داری کے سب سے اونچے مقام کے حق دار سمجھے جاتے رہیں۔ یہاں سب سے پہلے تو یہ مغالطہ دور فرمایا کہ خدا کی وفاداری کا مقام محض جھوٹی رسم داری اور نمائشی دین داری سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ اصل شے یہ ہے کہ خدا کی راہ میں ان چیزوں میں سے خرچ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔ جب تک انسان خدا کے لیے اپنی محبوبات کی قربانی کا عادی نہیں ہوتا اس وقت تک اس میں خدا کے عہد و پیمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوتا۔ مسلمانوں پر ملت ابراہیم کی مخالفت کا الزام : اس کے بعد ضمنی طور پر یہود کے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے جو انہوں نے مسلمانوں کو ملت ابراہیم کے خلاف ثابت کرنے کے لیے اٹھایا تھا۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کے ہاں کھانے پینے کی بعض ایسی چیزیں جائز ہیں جو یہود کے زعم کے مطابق ابراہیمی شریعت میں حرام تھیں۔ مثلاً اونٹ کی نسبت ان کا دعویٰ تھا کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ کی شریعت میں حرام ہے لیکن مسلمانوں کے ہاں نہ صرف یہ کہ حلال طیب ہے بلکہ ان کے ہاں یہ محبوب ترین مال ہے اور وہ اس کے نحر اور قربانی کو بڑے ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے سے ان کا مقصد، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، محض عوام کو یہ باور کرانا تھا کہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھی ملت ابراہیم سے برگشتہ ہیں۔ قرآن نے اس کا جواب دے دیا کہ یہ بات محض یہود کا افترا ہے۔ تورات خود اس بات پر شاہد ہے کہ اونٹ کی حرمت کا تعلق اگر ہے تو شریعتِ موسوی سے ہے نہ کہ شریعتِ ابراہیمی سے۔ اس ضمنی اعتراض کا جواب دینے کے بعد ان کو پھر ملت ابراہیمی کی پیروی کی دعوت دی ہے اور ان پیشین گوئیوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو تورات میں خانہ کعبہ کی اولیت، اس کی مرکزیت اور اس کے سرچشمہ برکت وہدایت ہونے کے باب میں وارد تھیں لیکن ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی، نیز ان نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو صاف شہادت دیتی ہیں کہ اسی سرزمین کو حضرت ابراہیم ؑ نے اپنا مسکن بنایا، اسی کو دار الامن قرار دیا، اسی کو حج و عبادت کا مرکز ٹھہرایا اور ہزاروں سال سے ان کی ذریت اس سرزمین پر ان کے نام اور ان کی روایات کی حامل چلی آرہی ہے۔ آخر کی دو آیتوں میں اہل کتاب کو ملامت کی ہے کہ جس راہ کی نشان دہی کے لیے تم خدا کی طرف سے مقرر کیے گئے تھے یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ تم اس سے لوگوں کو روکنے اور اس کو گم کرنے کے لیے اپنی کوششیں صرف کر رہے ہو۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔
Top