Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 98
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۖۗ وَ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
پو چھو اے اہل کتاب تم اللہ کی آیتوں کا کیوں انکار کرتے ہو۔ در آنحالیکہ جو کچھ تم کر رہے ہو سب خدا کی نظر میں ہے۔
تفسیر آیت 98-99: اب یہ اہل کتاب کو زجر اور ملامت ہے کہ اللہ کی جو نشانیاں ملت ابراہیم، بیت اللہ اور آخری رسول سے متعلق خود تمہارے اپنے صحیفوں میں موجود ہیں ان کو اور ان کے مصداق کو جان بوجھ کر کیوں جھٹلاتے ہو ؟ اور لوگوں کے ذہن میں کیوں شبہات بھر رہے ہو ؟ یہ بات تمہیں معلوم رہنی چاہیے کہ اللہ اور اس کی آیت کے ساتھ یہ شرارت جو تم کر رہے ہو یہ گویا اللہ کی موجودگی میں کر رہے ہو اور وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ جنہوں نے اللہ کی توفیق سے یہ راہ پالی ہے اب تم یہ چاہتے ہو کہ ان کے ذہن میں شبہات پیدا کر کے ان کو کسی ایسے رخ پر موڑ دو کہ ان کی ملی ہوئی راہ پھر گم ہو کر رہا جائے حالانکہ تم کو اللہ نے پہلے سے اس راہ پر اس لیے کھڑا کیا تھا کہ تم لوگوں کو رستہ بتاؤ گے لیکن تم نے شہداء اللہ ہو کر رہزنوں اور بٹ ماروں کا پیشہ اختیار کرلیا، یاد رکھو کہ یہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔ اگلی آیات 109 تا 100: یہاں تک خطاب کا اصلی رخ اہل کتاب کی طرف تھا، ان پر حجت تمام کردینے کے بعد اب آگے کی آیت سے خطاب مسلمانوں سے ہوگیا ہے اور ان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے اہل کتاب کی بات مانی تو یہ تم کو پھر اسی کفر و جاہلیت کے گڑھے میں گرا کے رہیں گے جس سے نکل کر تم ایمان واسلام کی روشنی میں آئے ہو۔ پھر اس عظیم نعمت کی قدردانی اور شکر گزاری کا احساس دلاتے ہوئے جو انہیں پیغمبر اور قرآن کی شکل میں حاصل ہوئی ہے، اس طریقے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جس کو اختیار کر کے وہ ان فتنوں سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں جو اہل کتاب ان کو گمراہ کرنے کے لیے اٹھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس اجتماعی نظام کی طرف بھی رہنمائی فرمائی ہے جو اس ملت کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ اس ملت کا انجام بھی وہی ہوگا جو اہل کتاب کا ہوا۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔
Top