Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 31
وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ١ۙ وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّقْنُتْ : اطاعت کرے مِنْكُنَّ : تم میں سے لِلّٰهِ : اللہ کی وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَتَعْمَلْ : اور عمل کرے صَالِحًا : نیک نُّؤْتِهَآ : ہم دیں گے اس کو اَجْرَهَا : اس کا اجر مَرَّتَيْنِ ۙ : دوہرا وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لَهَا : اس کے لیے رِزْقًا كَرِيْمًا : عزت کا رزق
اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار نبی رہیں گی اور عمل صالح کریں گی ہم ان کو دہرا اجر دی گے اور ہم نے ان کے لئے باعزت رزق تیار کر رکھا ہے۔
ومن یقنت مکن اللہ ورسولہ وتعمل صالحا نو تھا اجرھا مرتین فاعتدنا لھا رزقا کریما (31) یعنی جس طرح تمہارے کسی جرم کو سزا دگنی ہے اسی طرح تمہاری نیکیوں کی جزا بھی دگنی ہے۔ اس وجہ سے تم میں سے جو اللہ و رسول کی صدق دل سے فرمانبردری اور عمل صالح کرتی رہیں گی اللہ ان کو دہرا اجر دے گا اور ان کے لئے باعزت رزق اس نے تیار کر رکھا ہے۔ ہم دوسرے محل میں واضح کرچکے ہیں کہ ’ رزق ‘ اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام کی تعبیر ہے اور اس کے ساتھ کریم کی صفت اس حقیقت کی تعبیر کے لئے ہے کہ یہ رزو و فضل ان کو بطور صدقہ نہیں ملے گا بلکہ ان کے حق کے طور پر ملے گا اور ہمیشہ کے لئے، بلا کسی قید و شرط اور بغیر کسی اندیشہ احتساب و مواخزہ کے ملے گا۔ ان آیات سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ خدا کے ہاں مواخذہ اتمامِ حجت کے اعتبار سے ہوگا اور اعمال کا صلہ ان حالات کے اعتبار سے ملے گا جن میں وہ انجام دیے گئے ہیں۔ ازواج نبی ؓ کو چونکہ رسول ﷺ کی معیت حاصل ہوئی اور رسول اتمام ِ حجت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس وجہ سے ان سے مواخزہ سخت ہوگا۔ اسی طرح رسول کی رفاقت پوری وفاداری کے ساتھ چونکہ بڑا کٹھن کام ہے اس وجہ سے اس کا صلہ بھی دگنا ہے۔ جرموں کے مواخزہ اور اعمال کے صلہ کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے اور یہ بالکل مبنی بر عدل و حکمت ہے۔
Top