Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 35
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیْنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ١ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
اِنَّ
: بیشک
الْمُسْلِمِيْنَ
: مسلمان مرد
وَالْمُسْلِمٰتِ
: اور مسلمان عورتیں
وَالْمُؤْمِنِيْنَ
: اور مومن مرد
وَالْمُؤْمِنٰتِ
: اور مومن عورتیں
وَالْقٰنِتِيْنَ
: اور فرمانبردار مرد
وَالْقٰنِتٰتِ
: اور فرمانبردار عورتیں
وَالصّٰدِقِيْنَ
: اور راست گو مرد
وَالصّٰدِقٰتِ
: اور راست گو عورتیں
وَالصّٰبِرِيْنَ
: اور صبر کرنے والے مرد
وَالصّٰبِرٰتِ
: اور صبر کرنے والی عورتیں
وَالْخٰشِعِيْنَ
: اور عاجزی کرنے والے مرد
وَالْخٰشِعٰتِ
: اور عاجزی کرنے والی عورتیں
وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ
: اور صدقہ کرنے والے مرد
وَالْمُتَصَدِّقٰتِ
: اور صدقہ کرنے والی عورتیں
وَالصَّآئِمِيْنَ
: اور روزہ رکھنے والے مرد
وَالصّٰٓئِمٰتِ
: اور روزہ رکھنے والی عورتیں
وَالْحٰفِظِيْنَ
: اور حفاظت کرنے والے مرد
فُرُوْجَهُمْ
: اپنی شرمگاہیں
وَالْحٰفِظٰتِ
: اور حفاظت کرنے والی عورتیں
وَالذّٰكِرِيْنَ
: اور یاد کرنے والے
اللّٰهَ
: اللہ
كَثِيْرًا
: بکثرت
وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ
: اور یاد کرنے والی عورتیں
اَعَدَّ اللّٰهُ
: اللہ نے تیار کیا
لَهُمْ
: ان کے لیے
مَّغْفِرَةً
: بخشش
وَّاَجْرًا عَظِيْمًا
: اور اجر عظیم
اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں، ایمان لانے والے مرد اور ایما لانے والی عورتیں، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راستباز مرد اور راستباز عورتیں، ثابت قدمی دکھانے والے مرد اور ثابت قدمی دکھانے والی عورتیں، فروتنی اختیار کرنے والے مرد اور فروتنی اختیار کرنے والی عورتیں، خیرت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کے حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والی عورتی …ان کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔
ان المسلمین والمسلمت والمومنین والمومنت فالقتنتیں والقنتنت والصلقین والصدقت والصبرین والصبرات والخسعین والخشعت والمقتصدقین والمتصدقت والصالین والصئمت والخفظین نروجھم والحفظت والذکرین اللہ کثیر الذکرات اعد اللہ لھم مغفرۃ واجر اعظیما (35) اوپر جو باتیں متفرق طور پر، بعض منفی اور بعض مثبت پیرا یہ میں، فرمائی گئی ہیں۔ آخر میں ان سب کو ایک جامع اسلوب میں سامنے رکھ دیا گیا ہے اور مقصود اس سے یہ بتانا ہے کہ اللہ اور رسول کو جو معاشرہ مطلوب و محبت ہے اس کی صفات کیا ہونی چاہیں۔ یہ گویا مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے سامنے ایک آئینہ رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اس کو سامنے رکھ کر اپنے آپ کو سنواریں اور ان منافقبن و منافقات کے چکمے میں نہ آئین جو ان کے چہروں پر جاہلیت کی وہی سیاہی پھر ملنے کی فکر میں ہیں جس کو اللہ کے رسول نے دھونے کی کوشش کی ہے۔ یہ ساری باتیں تعداد میں دس ہیں اور اوپر سے اس پیرے میں جو ہدایت متفرق طور پر دی گئی ہیں وہ بھی الگ الگ تنیے تو دس نکلیں گی۔ جہاں چونکہ خطاب خاص طور پر ازواج مطہرات ؓ سے ہے، نیز مقصود اسلامی معاشرہ کے اجزائے ترکیبی کی بتانا ہے، اس وجہ سے عورتوں کا ذکر ضمناً نہیں بلکہ مردوں کے پہلو بہ پہلو مستقلاً آیا ہے اس لئے کہ عورتیں معاشرے کا بالکل نصف اور مساوی حصہ ہیں اور معاشرے کے بنائو اور بگاڑ میں ان کا دخل مردوں سے شاید کسرے زائد ہے : یہاں جو صفات گنائی گئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :۔ 1۔ اسلام 2۔ ایمان 3۔ قنوت 4۔ صدق 5۔ صبر 6۔ خشوع 7۔ صدقہ 8۔ روزہ 9۔ عفت و حیا 10۔ ذکر اللہ یہ تعداد میں دس ہیں۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اسلامی اخلاق و کردار کے تمام پہلو ان کے اندر سمٹ آئے ہیں اور چونکہ ان کا ذکر صفت کے صیغوں سے ہوا ہے اس وجہ سے یہ بحیثیت عادت و صفت کے مطلوب ہیں۔ یعنی معاشرہ کے ہر فرد پر، عورت ہو یا مرد، ان کا رنگ چھایا ہوا ہے۔ ان صفات میں سے کچھ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، کچھ کا تعلق حقوقل العباد سے ہے۔ اور کچھ اصلاً اصلاحِ نفس سے تعلق رکھنے والی ہیں۔ اسلام اور ایمان پورے دین کی جامع تعبیر ہے۔ ایمان دین کا باطن ہے، اسلام اس کا ظاہر ہے اور یہ دونوں بیک وقت مطلوب ہیں۔ لفظ قنوت ‘ اوپر آیت 31 میں گزر چکا ہے۔ یہ خدا اور رسول کی اس فرمانبرداری کی تعبیر ہے جو دل کی پوری یکسوئی، پوری نیاز مندی اور کامل اخلاص کے ساتھ دائما ہو۔ ’ صدق، قول، فعل ارادہ تینوں کی مطابقت اور استواری کی تعبیر کے لئے آتا ہے۔ اوپر آیت میں ’ صدقوا ما عھدو اللہ علیہ (اور انہوں نے اللہ سے جو عہد باندھا اس کو پورا کردکھایا) کے الفاظ گزر چکے ہیں۔ اس پہلو سے یہ نفاق کے بالکل ضد کردار کی تعبیر ہے۔ ہمارے ہاں قول مرداں جاں وارد، اس کے اسی پہلو کی تعبیر ہے۔ ’ صبر ‘ استقامت، استقامت، استقلال، پامردی کے مفہوم میں آتا ہے۔ جو آدمی ہر خوف و طمع کے مقابل میں خواہ وہ اس کے اندر سے سراٹھائے یا باہر سے، موقف حق پر ڈٹا اور اپنے رب سے راضی و مطمئن رہے وہ صابر ہے اور اسی کردار پر درحقیقت تمام دین قائم ہے۔ ’ خشوع ‘ کا مفہوم فروتنی اور خاکساری ہے۔ یہ چیز خدا کی ہیبت اور اس کی عظمت و جلال کے صحیح تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ صفت آدمی کو اس کے رب کے آگے بھی جھکاتی ہے اور خلق کے لئے بھی اس کو مہربان و حلیم بناتی ہے۔ یہ استکبار کا ضد ہے جو تمام انفرادی و اجتماعی برائیوں کی، خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے جڑ ہے۔ ’ تصدق ‘ کے معنی صدقہ کرنے کے ہیں۔ اس کا تعلق خاص طور پر حقوق العباد سے ہے۔ آدمی جب اپنی خواہشوں کو دبا کر اور اپنی ضروریات میں کرکے اپنا مال دوسروں کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کرتا ہے تو اس سے اس کے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ چیز درجہ بدرجہ اس کے ایمان کو پختہ اور استوار کرتی جاتی ہے۔ ’ صوم ‘ ضبطِ نفس اور تربیت صبر کی خاص ریاضت ہے۔ سورة بقرہ کی آیات 183۔ 187 کے تحت ہم اس کے اثرات پر بحث کرچکے ہیں۔ انسان کے تمام کردار کی بنیاد صبر پر ہے اور روزہ صبر کی تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ’ حفظ فروح ‘ عفت کی تعبیر یہ جو ضبط نفس کا ثمرہ یہ معاشرے میں خرابی پیدا کرنے کا سب سے زیادہ زود اثر شیطان کے ہاتھ میں یہی ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے سے عورتوں اور مردوں کے اندر عفت کے احساس کو مردہ کردیتا یہ۔ یہاں بھی اوپر کی آیت میں گزر چکا ہے کہ منافقین و منافقات کی سب سے بری کوشش یہ تھی کہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ کے اندر زیب وزینت کی نمائش کا شوق ابھاریں تاکہ اس طرح مسلمانوں کا پورا معاشرہ بےحیائی کی راہ پر چل پرے۔ ’ ذکر اللہ ‘ تمام مذکورہ بالا صفات کا منبع اور ان کا محافظ ہے۔ بندہ جتنا ہی زیادہ اپنے رب کو یاد رکھتا ہے اتنی ہی یہ صفات اس کے اندر راسح و پختہ ہوتی ہیں۔ سارے دین کی محافظ درحقیقت اللہ کی یاد ہی ہے۔ اور نماز اللہ کے ذکر ہی کا دوسرا نام ہے۔ چناچہ قرآ میں جگہ جگہ نماز کا ذکر تمام دین و اخلاق کے محافظ کی حیثیت سے آیا ہے اور ہم اس پر بحث کرچکے ہیں۔ 6۔ آگے کا مضمون…آیات 36۔ 48 آگے حضرت زید ؓ اور حضرت زینب کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی درحقیقت اوپر کے سلسلہ بیان ہی کی ایک کڑی ہے۔ اس واقعہ کو بھی منافقین اور منافقات نے ایک فتنہ بنا لیا تھا جس سے طرح طرح کے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب سوالوں کے جواب دیے جن سے دین کے بعض نہایت اہم پہلو واضح ہوئے۔ مثلاً یہ کہ… ٭اللہ اور رسول کا حق سب سے بڑا ہے اس وجہ سے جب کسی معاملے میں اللہ و رسول کی مرضی واضح ہوجائے تو اس میں آدمی کی اپنی مرضی کالعدم ہوجاتی ہے۔ ٭رسول کا فریضہ منصبی اللہ کے احکام کی دعوت اور ان کا اجراء نفاذ ہے اس وجہ سے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم صادر ہوجائے تو اس کا فرض ہے کہ اس حکم کی تعمل کرے اور اس معاملے میں کسی کی مخالفت یا ملامت کی مطلق پروانہ کرے۔ ٭متنبی کی بیوی سے متعلق جو تصور زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا نبی ﷺ کو اپنے عمل سے اس کی اصلاح کی ہدایت اور اس معاملے میں اشرار کے غوغا کی پروا نہ کرنے کی نہایت شدت سے تاکید۔ ٭ نبی ﷺ چونکہ خاتم النبین ہیں اس وہ سے ضروری ہوا کہ آپ کے ہاتھوں دین کے ہر شعبہ کی تکمیل ہوجائے۔ اس کے کسی پہلو میں کوئی خلا نہ رہ جائے۔ ٭ نبی ﷺ کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے خلق پر جو عظیم فضل و احسان فرمایا اس کا بیان اور امت پر آپ کے حقوق کی طرف اشارہ۔ یہ اشارات اگرچہ اس پیرے کے ربط و نظام کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں لیکن ہم بالا جمال حضرت زید ؓ اور حضرت زینب ؓ کا واقعہ بھی ذکر کیے دیتے ہیں تاکہ آیات کے تحت جزئیات سے تعرض کی ضرورت پیش نہ آئے۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ کا تعلق قبیلہ کلب سے تھا۔ یہ بچپن کسی غارت گری میں گرفتار ہوئے اور غلام بنا لیے گئے۔ حکیم بن حزام نے ان کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ ؓ کے لئے خریدا۔ حضرت خدیجہ ؓ جب آنحضرت ﷺ کے عقد نکاح میں آئیں تو انہوں نے ان کو آنحضرت ﷺ کو ہبہ کردیا۔ اس طرح ان کو حضور ﷺ کی غلامی کا شرف حاصل ہوا۔ حضور ﷺ کی غلامی کی جو قدر وعزت نے ان کی نگاہوں میں تھی اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جب ان کے والد اور چچا نے آنحضرت صلعم سے ان کی آزادی کا مطالبہ کیا تو حضور ﷺ نے ان کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے باپ کے پاس چلے جائیں، چاہیں تو حضور ﷺ کی خدمت میں رہیں۔ اس موقع پر حضرت زید ؓ نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنی محبت کی جو مثال پیش کی وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ انہوں نے آزادی کا اختیار نامہ پاجانے کے باوجود اس آزادی پر ھضور ﷺ کی غلامی کو ترجیح دی۔ خواجہ حافظ نے شاید اسی واقعہ کو سامنے رکھ کر اپنا یہ لاجواب شعر کیا ہو۔ بولائے تو کہ گر بندہ خویشم خوانی از خواجگی کون و مکان برخیزم اس کے بعد حضور ﷺ نے ان کو آزاد کردیا۔ ان سے محبت تو ان کی خوبیوں کے سبب سے حضور ﷺ کو شروع ہی سے تھی۔ اس واقعہ کے بعد وہ چو چند ہوگئی۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ کے غیر معمولی التفات و اعتماد کو دیکھ کر لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ آپ نے ان کو منہ بولا بیٹا بنا لیا ہے۔ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں انتظامی اور فوجی صلاحیتیں بھی تھیں۔ متعدد مواقع پر آپ ﷺ نے ان کو فوجی دستوں کی سر کردگی سپر کی اور بعض مواقع پر، حضور ﷺ کی غیبت میں، وہ مدینہ پر امیر بھی رہے۔ حضور ﷺ نے ان کی عزت افزائی کے لئے ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن، حضرت زینت بنت حجش ؓ کے ساتھ کردیا۔ ان کا تعلق خاندان بنی اسد تھا۔ ان کی والدہ امیمہ بنت عبد المطلب تھیں۔ جب حضور ﷺ نے حضرت زید ؓ کے لئے حضرت زینب ؓ کو پیغام دیا تو ان کے عزیزوں کو اس رشتہ پر اعتراض ہوا کہ حضرت زید ؓ ایک آزاد کردہ غلام اور غیر کفو ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ یہ چاہتے تھے کہ غلاموں سے متعلق لوگوں کے تصورات میں تبدیلی پیدا ہو اس وجہ سے آپ نے اس نکاح پر اصرار فرمایا۔ بالآخر حضرت زینب ؓ راضی ہوگئیں اور انکاح ہوگیا۔ نکاح کے بعد منافقین اور منافقت نے فتنہ اٹھایا کہ محمد ﷺ نے ایک معزز گھرانے کی ایک شریف خاتون کا دامن اپنے ایک آزاد کردہ غلام کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی اصلاحات کو عوام کا ذہن آسانی سے قبول نہیں کرتا اس وجہ سے اس نکاح کے خلاف ایک مخالفانہ فضا پیدا ہوگئی۔ خاص طور پر منافقات نے حضرت زینب ؓ کو ورغلانے کی پوری کوشش کی۔ ان کو غیرت دلائی کہ یہ سخت ظلم ہے کہ ان کو ایک ایسے شخص کے حبالہ عقد میں دے دیا گیا ہے جو ابھی تکل تک ایک زر خرید غلام تھا۔ آخر حضرت زینب ؓ بشر ہی تھیں، کوئی فرشتہ نہیں تھیں، اس وجہ سے ان کے دل پر بھی ان باتوں کا اثر پڑا ہوگا۔ حضرت زید ؓ ایک حساس، خودار، منکر المزاج آدمی تھے۔ آنحضرت ﷺ کی تمام دالداریوں کے باوجود اپنی غلامی کے دور کو بھولے نہیں تھے۔ دوسری طرح سیدہ زینبت ؓ کے مزاج میں فی الجملہ تمکنت اور تیزی تھی۔ عام حالات میں تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو خوش گوار معاشرت میں خلل انداز ہو لیکن منافقین نے چونکہ فضا بدگمانی کی بنادی تھی اس وجہ سے حضرت زید ؓ کو یہ احساس ہونے لگا کہ حضرت زینبت ؓ اپنے اندر ایک تفوق کا احساس رکھتی اور اس تعلق کو ناپسند کرتی ہیں۔ بالآخر انہوں نے ارادہ کیا کہ حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دیں کہ ان کی کبیدگی بھی رفع ہوجائے اور خود ان کے سرکا بوجھ بھی اتر جائے۔ لیکن کوئی اقدام کرنے سے پہلے انہوں نے چاہا کہ حضور ﷺ کا ایماء بھی معلوم کرلیں اس لئے کہ حضور ﷺ ہی نے یہ رشتہ کرایا تھا۔ جب حضور ﷺ سے انہوں کے اپنے ارادہ کا ذکر کیا تو آپ نے پوچھا کہ کیا ان کی طرف سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوئی ہے جو تمہیں شک میں ڈالنے والی ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایسی کوئی بات ہرگز نہیں ہے لیکن وہ اپنے خاندانی شرف کا احسس رکھتی اور اس کا اظہار بھی کرتی ہیں اور یہ چیز میرے لئے باعثِ اذیت ہے۔ حضور ﷺ نے اس پر سختی سے ان کو اراہ طلاق سے روکا اور خوفِ خدا یاد دلایا۔ اس لئے کہ مجرد اپنا ایک ذاتی احساس اس بات کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ بیوی کو طلاق دے دی جائے۔ حضرت زید ؓ کا یہ ارادہ مختلف وجوہ سے حضور ﷺ کے لئے پریشانی کا باعث ہوا۔ اول تو اس وجہ سے کہ حضور ﷺ ہی نے، جیسا کہ اوپر گزرا، ایک نہایت اعلیٰ مقصد یہ رشتہ کرایا تھا۔ قدرتی طور پر آپ کی آرزو یہی تھی کہ منافقین و منافقات کی ریشہ دوانیوں کی علی الرغم فریقین خوشگواری کے ساتھ نباہ کرتے رہیں اور یہ رشتہ کامیاب ہو۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس طلاق سے حضر زینتب ؓ کی حیثیت عرفی کو بڑا نقصان پہنچتا اور ان کا غم دہرا ہوجاتا۔ پہلے تو انہوں نے منافقین و منافقات کے یہ طعنے سنے کہ ایک آزاد کردہ غلام کی بیوی ہیں اور اس طلاق کے بعد لوگ یہ طعنہ دیتے کہ ایک آزاد کردہ غلام کی مطلقہ ہیں۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ حضور ﷺ اس سارے واقعہ کی ذمہ داری اپنے اوپر سمجھتے تھے، اس وہج سے حضرت زینب ؓ کی دالداری ضروری خیال فرماتے تھے۔ آپ کے دل میں یہ خیال تھا کہ اگر زید ؓ نے طلاق دے دی تو زینب ؓ کی دالداری کی واحد شکل یہ باقی رہ جائے گی کہ حضور ﷺ ان کو خود اپنے نکاح میں لے لیں، لیکن اس صورت میں اس سے بھی بڑے ایک دوسرے فتنے کے اٹھ کھڑے ہونے کا اندیشہ تھا کہ لوگ کہیں گے کہ آپ ﷺ نے اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرلیا۔ علاوہ ازیں اس میں یہ شکل بھی تھی کہ عام مسلمانوں کے لئے ازواج کے باب میں چار تک کی تحدید کا حکم نازل ہوچکا تھا اور اس وقت حضور ﷺ کے نکاح میں چار بیویاں تھیں۔ ان مختلف وجوہ سے آنحضرت ﷺ کی دلی خواہش یہی تھی کہ حضرت زید ؓ طلاق نہ دیں، چناچہ آپ باصرار ان کو اس ارادہ سے روکتے رہے، لیکن حضرت زید ؓ حالات کا مقابلہ نہ کرسکے۔۔ ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ سارا ہنگامہ ان کے اس نکاح کے سبب سے اٹھا ہے اور اس کا علاج یہی ہے کہ وہ طلاق دے دیں تاکہ حضرت زینب ؓ کی جان بھی ضیق سے چھوٹے اور ان کو بھی اطمینان کا سانس لینے کا موقع ملے۔ چناچہ انہوں نے طلاق دے دی۔ حضرت زینب ؓ کو اس طلاق سے صدمہ ہوا۔ روایات میں آتا ہے کہ ان کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ جب بات یہاں تک پہنچ گئی تو، جیسا کہ اوپر گزرا، حضور ﷺ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح کرلینا چاہا لیکن منہ بولے بیٹے کے معاملے میں جاہلیت کی جو رسم تھی اس کے سبب سے اور تحدید نکاح کے سبب سے بھی آپ مترد رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ہدایت ہوئی کہ لوگوں کی مخالفت سے بےپروا ہو کر آپ ﷺ یہ نکاح کرلیں تاکہ آپ کے عمل سے ایک غلط رسم کی اصلاح ہوجائے اور دین فطرت کے اندر ایک خلافِ فطرت چیز جو گھسی ہوئی ہے اس کا خاتمہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کے بموجب آپ ﷺ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح کرلیا۔ یہ اصل واقعہ ہے جو میں نے تمام روایات کی تحقیق کے بعد، آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس طول بیان کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ مستشرقین نے اس واقعہ کو اپنی رنگ آمیزیوں سے نہایت مکروہ بنا دیا ہے اور صدمہ کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس رنگ آمیزی کے لئے سارا مواد ہماری تفسیر و سیرت کی کتابوں ہی سے لیا ہے… اب اس روشنی میں آس آیات کی تلاوت فرمائیے۔
Top