Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 38
مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ١ؕ سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا٘ۙ
مَا كَانَ : نہیں ہے عَلَي النَّبِيِّ : نبی پر مِنْ حَرَجٍ : کوئی حرج فِيْمَا : اس میں جو فَرَضَ اللّٰهُ : مقرر کیا اللہ نے لَهٗ ۭ : اس کے لیے سُنَّةَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور فِي : میں الَّذِيْنَ : وہ جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلُ ۭ : پہلے وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم قَدَرًا : مقرر کیا ہوا مَّقْدُوْرَۨا : اندازہ سے
اور نبی کے لئے اللہ نے جو کچھ فرض کیا اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ یہی اللہ کی سنت رہی ہے ان لوگوں کے معاملے میں بھی جو پہلے گزرے ہیں۔ اور اللہ کے فیصلہ کے لئے ایک وقت مقرر تھا۔
ماکان علی النبی من حرج فیما فرض اللہ لہ سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل وکان امر اللہ قدر مقدورا الذی یبلغون رسلت اللہ ویخشونہ ولا یخشون احد الا اللہ وکفی باللہ حسیبا (38۔ 39) یہ نبی ﷺ کے لئے تسلی ہے کہ آپ کی زندگی کے پروگرام میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے مراحل جو رکھ ہیں یہ کسی زحمت کے لئے نہیں رکھے ہیں اور نہ یہ تنہا آپ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں بلکہ سابق انبیاء کو بھی اس طرح کے مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو اس نے اپنی حکمت کے تحت مقرر فرمائی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضراتِ انبیا کو اس طرح کی مشکلات جو پیش آتی ہیں یہ ان کی تربیت اور امتحان کے لئے پیش آتی ہیں اور ٹھیک ٹھیک خدا کے مقرر کردہ پروگرام کے مطابق پیش آتی ہیں۔ انہی امتحانوں سے ان کے اوصاف اجاگر ہوتے ہیں اور انہی سے ان کے پیروئوں کا اخلاص یا کھوٹ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ’ فرض اللہ لہ، کا مفہوم ’ فرض اللہ علیہ سے مختلف ہے۔ فرض اللہ علیہ کا مفہوم تو یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے اس پر فرض کیا ہے اور فرض اللہ لہ کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے اس کے لئے مقسوم کیا ہے کہ اس کی زندگی میں یہ یہ احوال و مراحل پیش آئیں گے۔ سنہ اللہ من الذین خلوا میں زبان کا جو اسلوب ہے اس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ اس اسلوب کو کھول دیجئے تو پوری بات یوں ہوگی۔ سن اللہ ذلک سنۃ فی الانبیاء (یہ اللہ نے اپنے نبیوں کے لئے ایک سنت مقرر کر رکھی ہے۔ (۔ ’ وکان امر اللہ قدرا مقدورا۔ یعنی اللہ نے اپنے فیصلہ کے ظہور کے لئے ایک وقت پہلے سے مقرر فرمادیا تھا، جب وہ وقت آگیا تو اس کا حکم صادر ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ زندگی میں کوئی چیز بھی اتفاق سے پیش نہیں آجاتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے پروگرام کے مطابق پیش آتی ہے۔ اس وجہ سے کسی امر کو اتفاق پر محمول کرکے نہ اس سے پریشان ہونا چاہیے نہ اس کو نظر انداز کرنا چاہیے بلکہ اس کو خدا کی طرف سے سمجھنا اور اس طرح اس کو مواجہہ کرنا چاہیے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ الذین یبلغون رسلت اللہ ویخسونہ ولا یخشون احد اللہ یہ الذین خلوا من قبل یعنی انبیائے سابقین کی صفت ہے کہ وہ اللہ کے پیغاموں کی تبلیغ کرتے رہے ہیں، اس معاملے میں، اس کے سوا کسی اور کی پروا انہوں نے نہیں کی۔ مطلب یہ ہے کہ جو ذمہ داری اللہ نے اپنے سابق نبیوں پر ڈالی اور انہوں نے وہ بےخوف لومہ لائم ادا کی وہی اس نے آپ پر بھی ڈالی ہے اور آپ کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے پیش روئوں کی طرح بےخوف لومۃ لائم اس کا ادا کریں۔ ’ وکفی باللہ حسیبا میں حسیب“ کی تفسیر ابن کثیر اور کشاف نے ’ ناصر ] اور معین کی ہے۔ یعنی اللہ تمام خطرات سے حفاظت کے لئے کافی ہے۔ اگر یہ تاویل قبول کریلجائے تو نظم کلام بالکل واضح ہے اور اگر حسیب کے معنی حساب کرنے والے کے کیے جائیں، جیسا کہ معروف ہے۔ تو یہ ٹکڑا تنبیہ کے مفہوم میں ہوگا کہ اگر اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں دوسروں کے خوف یا لحاظ کے سبب سے ادنیٰ کوتاہی بھی ہوئی تا یاد رہے کہ اللہ محاسبہ کے لئے کافی ہے۔
Top