Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
مَا كَانَ : نہیں ہیں مُحَمَّدٌ : محمد اَبَآ : باپ اَحَدٍ : کسی کے مِّنْ رِّجَالِكُمْ : تمہارے مردوں میں سے وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کے رسول وَخَاتَمَ : اور مہر النَّبِيّٖنَ ۭ : نبیوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمًا : جاننے والا
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
ما کان محمد ابا اھد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین وکان اللہ بکل شئی علیما (40) یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو آنحضرت ﷺ کو حضرت زید ؓ کا باپ قرار دے کر اس فتنے کے اٹھانے والے بنے تھے۔ فرمایا کہ محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبی نہیں۔ نبی و رسول کی حیثیت سے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ انہوں نے ادا کی اور چونکہ یہ خاتم النیبن ہیں اس وجہ سے ضروری تھا کہ انہی کے ذریعے سے اس رسم بد کی اصلاح ہوجائے۔ اگر ان کے بعد کوئی اور نبی آنے والا ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ اس معاملے کو اللہ تعالیٰ آئندہ پر اٹھا رکھتا لیکن اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، انہی کے ہاتھوں دین کی تکمیل ہونی ہے۔ اس وجہ سے ہر وہ چیز درست کی جائے گی جو بگری ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ان کے معاملات کو اپنے مفروضات کی روشنی میں نہ دیکھو بلکہ ان کے اصل منصب اور اس کی ذمہ دارویوں کی روشنی میں دیکھو۔ اگر ان کے اصل منصب کو تم نے پہنچانا تو اسی طرح دوسری اور بہت سی باتوں پر بھی تمہیں اعتراوض ہوں گے حالانکہ انہیں وہ سارے کام بےخوف لومۃ لائم کرنے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ہدایت ہوگی۔ اور یہہ بھی یاد رکھو کہ یہ تمہاری طرف اللہ کے رسول ہیں۔ اگر تم نے ان کی تکذیب کردی تو اس سنت الٰہی کی زد میں آنے سے نہیں بچ سکو گے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے مکذبین کے لئے مقرر کر رکھی ہے اور جو ہمیشہ ظہور میں آئی ہے۔ ’ ما کان محمد ابا احد من ربی لکم ‘ میں دراصل نفی تو اسی غلط فہمی کی ہے جس میں وہ لوگ مبتلا تھے جن ہو نے آنحضرت ﷺ کو حضرت زید ؓ کا باپ بنا رکھا تھا لیکن صرف اتنا ہی نہیں فرمایا کہ محمد ﷺ زید ؓ کے باپ نہیں ہیں بلکہ اس سے بڑھو کر یہ فرمایا کہ تمہارے مردوں میں سے کسی کے بھی وہ باپ نہیں ہیں۔ اس سے بات زوردار بھی ہوگئی اور ہی بیان واقعہ بھی ہے اس لئے کہ حضور ﷺ کی اولادِ ذکور میں سب کی وفات نابالغی میں ہوئی ’ دجال ‘ کی عمر کو ان میں سے کوئی نہیں پہنچا۔ ’ ولکن رسول اللہ وخاتم النبین ‘ نبی اور رسول کے فرق پر وضاحت سے ہم اس کتاب میں جگہ جگہ بحث کرچکے ہیں۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیے کہ نبی اور رسول کے درمیان نسبت عام اور خاص ہے۔ ہر رسول نبی لازماً ہوتا ہے لیکن ہر نبی کا رسول ہونا لازمی نہیں : اس وجہ سے اگر حضور خاتم الانبیاء ہیں تو خاتم الرسل بدرجہ اولیٰ ہوئے۔ بعض گمراہ فرقوں نے یہ شوشہ جو نکالا ہے کہ قرآن میں نبی ﷺ کو خاتم الانبیاء بتایا گیا ہے۔ خاتم الرسل نہیں کہا گیا ہے، اس وجہ سے سلسلہ رسالت کے اجراء کی نفی نہیں ہوئی، یہ محض ان کی جہالت ہ۔ ’ خاتم ‘ اور ’ خاتم ‘ دونوں لفظ اہل لغت کے نزدیک بالکل ہم معنی ہے۔ قوم کا آخری فرد، کسی شے کا انجام، خط کے آخر کی مہر، یہ سب چیزیں اس کے مفہوم میں داخل ہیں۔ ’ وکان اللہ بکل شئی و علیما ‘۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے سارا غو غا برپا کیا ہے ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ ساری چیزوں سے ان سے زیادہ باخبر ہے۔ وہ زید ؓ کو بھی جانتا ہے، زینب ؓ کو بھی جانتا ہے، اپنے پیغمبر ؓ سے بھی واقف ہے اور زید ؓ و زینب ؓ کے ساتھ ان کے رشتہ کی نوعیت سے بھی باخبر ہے۔ ان باتوں میں سے کسی سے بھی وہ بےعلم نہیں ہے۔ جو کچھ ہوا ہے سب اس کے اذن و ایمان سے ہوا ہے اس وجہ سے ان کے خلاف ہنگامہ برپا کرنا جہالت و حماقت ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت پر بھروسہ کیا جائے اور جو اصلاح عمل میں آئی ہے اس کی قدر کی جائے۔ خدا کا محیط کل علم ہی ہر چیز کی باریکیوں اور حکمتوں کو سمجھ سکتا ہے، دوسرے اس کی ساری حکمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتے۔
Top