Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والو ! تم اپنے اوپر اللہ کے فضل کو یا در رکھو کہ جب تم پر فوجیں چڑھ آئیں تو ہم نے ان پر ایک بادتند بھیجی اور ایسی فوجیں بھی بھیجیں جو تم کو نظر نہیں آئیں۔ اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو برابر دیکھتے رہنے والا ہے۔
2۔ آگے کا مضمون۔ آیات 9۔ 27 آگے غزوہ احزاب کے واقعات کا حوالہ ہے اور مقصود اس سے اسی مضمون کو واقعات کی روشنی میں مزید واضح کرنا ہے جو تمہید میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو اللہ کے دین کی راہ میں مخالفوں کی مخالفت اور ان کی سازشوں کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے، اللہ بھروسے کے لئے کافی ہے۔ وہ اپنی آنکھوں نصرت الٰہی کا یہ کرشمہ دیکھ چکے ہیں کہ ان کے تمام مخالفین اپنی پوری مجتمعہ قوت کے ساتھ ان پر پل پڑے تھے اور اندر سے منافقین نے بھی اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے ان کے قدم اکھاڑ دینے کی پوری کوشش کی لیکن اللہ کی تدبیر سب پر غالب رہی۔ دشمنوں کو بےنیل مرام پسا ہونا پڑا۔ غزوہ احزاب شوال 5 ھ؁ میں واقع ہوا۔ یہود بنی نضیر کے کچھ لیڈروں کو نبی ﷺ نے مدینہ سے خیبر کی طرف جلا وطن کردیا تھا۔ انہوں نے مکہ جا کر قریش کے لیڈروں سے فریاد کی اور ان کو آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پر حملہ کریں۔ قریش حملہ کے لئے پہلے سے پر تول رہے تھے، جب انکو یہود کی شہ بھی حاصل ہوگئی تو گویا مانگی مراد مل گئی۔ اس کے بعد غطفان اور ہوازن کے لیڈروں کو بھی انہوں نے ہموار کرلیا۔ اس طرح تقریباً دس ہزار کا ایک لشکر جرار مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ قریش کو لشکر ابوسفیان کی سر کردگی میں تھا اور غطفان و ہوازن عینیہ بن حض اور عامر بن طفیل کی قیادت میں نکلے۔ مزید برآں حی بن اخطب نضری نے یہودبنی قریضہ کو بھی اس متحدہ محاذ میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا۔ اگرچہ انہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ معاہدہ امن و صلح کر رکھا تھا لیکن اس موقع کو انہوں نے غنیمت جانا اور معاہدے کی پروانہ کی۔ ان کی تعداد کم و بیش آٹھ سو تھی۔ آنحضرت ﷺ کو جب دشمنوں کو ان تیاریوں کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورے سے مسلمانوں کو مدینہ کی ان سمتوں میں خندق کھودنے کا حکم دیا جن سے حملہ کا خطرہ تھا چناچہ شہر کی شمالی اور مغربی سمت میں ساڑھے تین میل لمبی ایک خندق کھودی گئی اور یہ کام نہایت سرگرمی کے ساتھ ان تین ہزار مجاہدوں نے انجام دیا جو حضور ﷺ کے ساتھ تھے اور خود سرور عالم ﷺ نے بھی بہ نفس و نفیس اس کام میں حصہ لیا۔ دشمنوں نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا اور یہ محاصرہ تقریباً ایک ماہ رہا لیکن اس دوران میں سنگ باری اور تیر اندازی کے اکا دکا واقعات کے سوا دو بدو جنگ کی کوئی نوبت نہیں آئی۔ دشمن نے یہ اندازہ کرلیا کہ مسلمانوں نے مدافوت کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ پھر محاذ میں پھوٹ بھی پڑگئی اور مزید برآن ایک طوفانی ہوا نے ان کے خیمے و شامیانے سب اکھاڑ کے پھینک دیے جس کے بعد ان کے حوصلے پست ہوگئے اور ابو سفیان نے واپسی کا اعلان کردیا۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ 3۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت یایھا الذین امنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذا جاء تکم جنود فارسلنا علیھم ریحا وجوند الم تروھا وکان اللہ بما تعملون بصیرا (9) آیت 3 میں اللہ ہی بھروسہ کرنے کی جو ہدایت فرمائی گئی ہے اسی مضمون کو موکد کرنے کے لئے یہ تائید الٰہی کے ان کرشموں کو یاد دہانی کرائی جا رہی ہے جو ماضی قریب میں مسلمانوں کی نصرت کے لئے ظاہر ہوئے تھے۔ غزوہ خندق کے موقع پر تمام عرب مسلمانوں پر امڈ آیا تھا لیکن مسلمانوں کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ دشمنوں کی دل بادل فوجیں اللہ تعالیٰ ہی نے اپنی پھونک سے اڑا دیں اور یہ حقیقت سب کے سامنے آگئی کہ اللہ تعالیٰ اعتماد کے لئے تنہا کافی ہے۔ اگر اس کی مدد حاصل ہو تو ساری دنیا کی مخالفت بھی کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی۔ ’ فارسلنا علیھم ریحا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محاصرہ کے آخری دنوں میں ایسی طوطانی آندھی آئی کہ خیموں کی چوبیں اور طنابیں اکھڑ گئیں، دیگی الٹ گئیں، سواری کے جانور تتر بتر ہوگئے، سردی کی شدت کے باوجود آگ جلانا ناممکن ہوگیا، تاریکی کا یہ عالم کہ ہاتھ کو ہاتھ سمجھائی نہیں دیتا تھا۔ اس صورتِ حال نے دشمنوں پر مرعوبیت طاری کردی اور ابوسفیان نے سلامتی اسی میں دیکھی کہ کسی طرح اس آفت سے جانبچا کر گھر کو واپس ہوجائے۔ ’ وجنودا لم تروھا ‘۔ یعنی باد تند کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسی فوجیں بھی بھیجٰں جو مسلمانوں کو نظر نہیں آئیں۔ یہ اشارہ ملائکہ کی افواج کی طرف ہے جو ہمیشہ اہل ایمان کے ہم رکاب رہتی ہیں۔ اگر وہ وہ خو دنظر نہی آتیں لیکن ان کے شاندار غیبی کارنامے ظہور میں آتے ہیں جن سے اہل ایمان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان کے دشمن مرعوب ہوتے ہیں۔ سورة انفال میں بسلسلہ غزوہ بدر، اس مئلہ پر ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ ’ لم تروھا ‘ سے یہ بات تو معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو یہ فوجیں نظر نہیں آئیں لیکن اس سے یہ بات نہیں نکلتی کہ کار نے بھی ان کو نہیں دیکھا۔ قرینِ قیاس یہی ہے کہ ان کو یہ فوجیں دکھائی دی ہوں جس سے ان کو یہ اندازہ ہوا ہو کہ مسلمانوں کو جمعیت بہت بڑی ہے اور یہ چیز ان کی مرعوبیت کا باعث ہوئی ہے۔ ’ وکان اللہ بما تعملون بصیرا۔ یہ وہی مضمون ہے جو اوپر آیت 2 میں بدیں الفاظ گر چکا ہے۔ ان اللہ کان بما تعملون خبیرا۔ اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ بندے کو اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اس کو یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ خبیر وبصیر ہے۔ اس کے بندے اس کی راہ میں جو بازیاں کھلیتے اور جو مشقتیں جھیلتے ہیں وہ ان کو دیکھتا اور ان سے اچھی طرح باخبر رہتا ہے۔
Top