Tadabbur-e-Quran - Faatir : 22
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَمَا يَسْتَوِي : اور نہیں برابر الْاَحْيَآءُ : زندے وَلَا : اور نہ الْاَمْوَاتُ ۭ : مردے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُسْمِعُ : سنا دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جس کو وہ چاہتا ہے وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِمُسْمِعٍ : سنانے والے مَّنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
اور نہ زندہ اور مردے یکساں ہوں گے۔ اللہ ہی جن کو چاہتا ہے سناتا ہے اور تم ان کو سنانے والے نہیں بن سکتے جو قبروں کے اندر ہیں۔
آیت 22 یہ وہی مضمون دوسرے الفاظ اور دوسرے اسلوب میں بیان ہوا ہے۔ اس دور میں نبی ﷺ کو اپنی قوم کو بیزاری سے بڑی پریشانی تھی۔ آپ کو اندیشہ تھا کہ مبادا اس میں آپ ﷺ ہی کی کسی کوتاہی کو دخل ہو۔ آپ ﷺ کی یہ پریشانی دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف اسلوبوں سے تسلی دی کہ تمہارا کام زندوں کو سنانا ہے، مردوں کو جگانا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ جن کی صلاحیتوں زندہ ہیں وہ تمہاری بات سن رہے ہیں اور مان رہے ہیں۔ رہے وہ جو عقلی و روحانی اعتبار سے بالکل مردہ ہوچکے ہیں اگر تم چاہتے ہو کہ یہ تمہاری بات سننے والے بن جائیں تو یہ ہونے سے رہا۔ ’ ان اللہ یسمع من یشاء۔ ’ اسماع ‘ یہاں بات کو سننے اور ماننے کی توفیق دینے کے مفہوم میں ہے۔ یعنی یہ اللہ ہی ہے جو سچی سننے اور اس کو ماننے کی، جس کو چاہتا ہے، توفیق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر چاہنا اس کی حکمت کے تحت ہے۔ اس معاملے میں اس کا قانون یہ ہے کہ جو لوگ اس کی بخشی ہوئی فطری صلاحیتوں کو زندہ رکھتے ہیں ان کو تو وہ مزید سننے سمجھنے اور ماننے کی توفیق بخشتا ہے اور جو لوگ اپنی فطری ہدایت کی قدر نہیں کرتے وہ اخلاقی اعتبار سے مردوں کے حکم ہیں ان کو زندہ کرنا خدا کے سوا کسی کے امکان میں نہیں۔ یہ تبلیغ و دعوت کے معاملے میں نبی ﷺ کی ذمہ داری کی صدا واضح فرمادی کہ تم بس لوگوں کو آنے والے خطرے سے آگاہ کردینے والے ہو۔ یہ ذمہ داری تمہارے اوپر نہیں ہے کہ لوگ تمہاری بات مان بھی لیں۔ تم کو خدا نے حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ جن باتوں کی تم خبر دے رہے ہو ان میں سے ہر بات شدنی ہے۔ پس تمہارا کام یہ ہے کہ جو لوگ تمہاری باتوں پر کان دھریں ان کو ان کے مبارک انجام کی خوش خبری سنا دو۔ اور جو لوگ تمہاری باتوں سے منہ موڑیں ان کو ان کے انجام ِ بد سے آگاہ کردو۔ اس سے زیادہ تمہاری کوئی ذمہ داری ہے۔ اس وجہ سے تمہیں ان کے لئے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’ وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر۔ ‘ یعنی تم دنیا میں پہلے نذیر نہیں ہو، بلکہ ماضی میں جو قومیں گزری ہیں ان میں بھی اللہ نے اپنے نذیر بھیجے تو ان کر سرگزشت میں تمہارے لئے بھی سبق ہے اور تمہاری قوم کے لئے بھی درس عبرت ہے۔ تمہارے ساتھ اللہ وہی معاملہ کرے گا جو اس نے اپنے رسولوں کے ساتھ کیا اور تمہاری قوم کے ساتھ بھی لازما ً وہی معاملہ کرے گا جو پچھلی قوموں کے ساتھ اس نے کیا۔
Top