Tadabbur-e-Quran - Faatir : 43
اِ۟سْتِكْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَكْرَ السَّیِّئِ١ؕ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ١ؕ فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ١ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا١ۚ۬ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِیْلًا
اسْتِكْبَارًا : اپنے کو بڑا سمجھنے کے سبب فِي الْاَرْضِ : زمین (دنیا) میں وَمَكْرَ : اور چال السَّيِّئُ : بری وَلَا يَحِيْقُ : اور نہیں اٹھتا (الٹا پڑتا) الْمَكْرُ : چال السَّيِّئُ : بری اِلَّا : صرف بِاَهْلِهٖ ۭ : اس کے کرنے والے پر فَهَلْ : تو کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کر رہے ہیں اِلَّا : مگر صرف سُنَّتَ : دستور الْاَوَّلِيْنَ ۚ : پہلے فَلَنْ تَجِدَ : سو تم ہرگز نہ پاؤ گے لِسُنَّتِ اللّٰهِ : اللہ کے دستور میں تَبْدِيْلًا ڬ : کوئی تبدیلی وَلَنْ تَجِدَ : اور تم ہرگز نہ پاؤ گے لِسُنَّتِ اللّٰهِ : اللہ کے دستور میں تَحْوِيْلًا : کوئی تغیر
اور بری چال تو اسی کو گھیرتی یہ جو بری چال چلتا ہے۔ پس یہ نہیں انتظار کر رہے ہیں مگر اسی سنت الٰہی کا جو اگلوں کے باب میں ظاہر ہوئی۔ تو تم سنت الٰہی میں نہ کوئی تبدیلی پائو گے اور نہ تم سنت الٰہی کو ٹلتے ہی ہوئے پائو گے۔
آیت 43 یہ رسول سے ان کی بیزاری کا سبب بیان ہوا ہے کہ اس کا سبب صرف استکبار ہے۔ حق ان پر اچھی طرح واضح ہے لیکن ملک میں جو قیادت و سیادت ان کو حاصل ہے اس کو یہ کسی قیمت پر قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اس وجہ سے اس صریح حق کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر انہوں نے محمد ﷺ کی رسالت تسلیم کرلی تو ان کی سیادت ختم ہوجائے گی۔ ’ ومکرا السی ‘ کا عطف ’ نفورا ‘ پر ہے۔ یعنی جس رسول کی ہدایت کے علمبردار بننے کے مدعی تھے جب وہ آیاتو اس کے دشمن بن کے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کو زک پہنچانے کے لئے اس کے خلاف مکروہ سازشوں میں سرگرم ہوگئے۔ لفظ ’ مکر ‘ چونکہ اچھے معنوں میں بھی آتا ہے اس وجہ سے اس کے ساتھ سیی کی قید لگا کر ان کے مکر کی نوعیت واضح فرمادی۔ پیچھے آیت 10 میں بھی ان کی بری سازشوں اور اس کے انجام کا ذکر گزر چکا ہے۔ ’ ولا یحیق المکرا السئی الا باھلہ۔ ‘ حق کے خلاف جو شخص سازش کرتا ہے وہ درحقیقت خود اپنے خلاف سازش کرتا ہے۔ بظاہر تو وہ یہ جال دوسرے کے لئے بنتا ہے لیکن اس جال میں سب سے پہلے وہ خود پھنستا ہے۔ صحیح راہ بتانے والے کی مخالفت کرنا خود اپنی راہ گم اور اپنی عاقبت برباد کرنا ہے۔ دوسروں کو اس سازش سے کوئی ضرر اللہ کے اذن کے بغیر وہ نہی پہنچا سکتا لیکن اپنے کو وہ بہرحال ہلاکت کے حوالہ کردیتا ہے۔ ’ فھل ینظرون الا سنت الاولین۔ ینظرون ‘ یہاں انتظار کرنے کے معنی میں ہے اور سنت الاولین کے اندر عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق کچھ الفاط حذف ہیں۔ ان کو کھول دیجئے تو پوری بات یوں ہوگی۔ فھل ینظرون الا سنت اللہ فی الاولین۔ یعنی اگر یہ لوگ اپنے تکبر اور حق بیزاری کے باعث اب مخالفت اور سازش ہی کے درپے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اب یہ منتظر ہیں کہ ان سے پہلے جو قومیں گزری ہیں، اللہ کی جو سنت ان کے لئے ظاہر ہوئی وہ ان کے لئے بھی ظاہر ہوجائے اور جس طرح رسولوں کی تکذیب کے جرم میں وہ تباہ کردی گئیں اسی طرح یہ بھی تباہ کردیے جائیں۔ ’ فلن تجد لسنت اللہ تبدیلا۔ ولن تجد السنت اللہ تحویلا۔ یہ آنحضرت ﷺ کو نہایت پر زور الفاظ میں تسلی دی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ اسی کے منتظر ہیں تو اطمینان رکھو کہ سنت الٰہی نہ بدلتی ہے، نہ ٹلتی ہے۔ ’ نہ بدلنے ‘ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہر قوم کے لئے بالکل یکساں اور بےلاگ ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ جو رویہ ایک قوم کے لئے باعث ہلاکت ہوچکا ہے وہی رویہ دوسری قوم اختیار کرے تو وہ اس انجام سے بچ جائے۔ ’ نہ ٹلنے ‘ کا مفہوم یہ ہے کہ جب اس کے ظہور کا وقت آجائے گا تو وہ لازماً ظہور میں آکے رہے گی۔ پھر اس کو ٹالنا یا اس کے رخ کو بدلنا کسی کے بس میں بھی نہیں ہوگا۔
Top