Tadabbur-e-Quran - Faatir : 9
وَ اللّٰهُ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ
وَاللّٰهُ : اور اللہ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا الرِّيٰحَ : ہوائیں فَتُثِيْرُ : پھر وہ اٹھاتی ہیں سَحَابًا : بادل فَسُقْنٰهُ : پھر ہم اسے لے گئے اِلٰى : طرف بَلَدٍ مَّيِّتٍ : مردہ شہر فَاَحْيَيْنَا : پھر ہم نے زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ : اس کے مرنے کے بعد كَذٰلِكَ : اسی طرح النُّشُوْرُ : جی اٹھنا
اور اللہ ہی ہے جو بھیجتا ہے ہوائوں کو پس وہ ابھارتی ہیں بادلوں کو پھر ہم ان کو ہانکتے ہیں کسی خشک زمین کی طرف پس ہم اس سے اس زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد از سرنو زندگی بخش دیتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کا ازسر نو زندہ ہو کر اٹھنا ہے۔
2۔ آگے کا مضمون۔ آیات 9۔ 18 آگے اس وعدہ شدنی کی، جس کا ذکراوپر آیت 5 میں ہوا ہے، بطور تمہید پہلے دلیل بیان فرمائی ہے، پھر بتایا ہے کہ جس کو خدا کا تقرب اور اس کی بارگاہ میں سرخ روئی مطلوب ہو وہ جھوٹے معبودوں کو تقریب کا ذریعہ بنانے کے بجائے اس کا صحیح طریقہ اختیار کرے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی ایمان اور عمل صالح کی راہ پر چلے۔ ایمان خدا کی طرف صعود کرنے والی چیز ہے اور عمل ِ صالح اس کو سہارا دیتا ہے اور رفعت بخشتا ہے۔ اس کے سوا خدا کے تقریب کی کوئی اور راہ نہیں ہے۔ جن لوگوں نے یہ راہ چھوڑ کر دوسری راہیں نکالی ہی اور اصل راہ سے لوگوں کو ہٹانے کے لئے رات دن طرح طرح کی سازشوں میں سرگرم ہیں ان کی ساری سازشوں کے تار وپودایک دن بکھر جائیں گے۔ پھر یہ واضح فرمایا کہ مال و اولاد میں بڑھوتری، عمر میں کمی بیشی اور اس طرح کی تمام باتیں اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں، فرشتوں یا جنوں یا دوسرے فرضی معبودوں کو ان میں کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کائنات کے اضداد میں جو ثوافق ہے وہ اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ اس کے اندر صرف ایک ہی خدائے قادر وقیوم کا ارادہ کارفرما ہے۔ اس کے سوا کسی کو ذرہ برابر بھی کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس کے بعد لوگوں کو متنبہ کہ یہ دعوت جو تمہیں دی جا رہی ہے تمہارے ہی نفع کے لئے دی جا رہی ہے۔ خدا کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہی خدا کے محتاج ہو۔ یہ دعوت قبول کرو گے تو اپنی دنیا و عاقب سنواروگے اور اگر نہ کرو گے تو اپنے ہی کو تباہ کرو گے۔ ساتھ ہی نبی ﷺ کو تسلی دی کہ کس مزاج کے لوگ اس دعوت کو قبول کریں گے اور کس طرح کے لوگ اس سے محروم رہیں گے۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ 3۔ الفاط کی تحقیق اور آیات کی وضاحت آیت 9 اوپر آیت 5 میں جس وعدہ، شدنی کی یاددہانی فرمائی ہے کائنات کے مشاہدات سے یہ اس کی دلیل پیش کی ہے کہ اس کو مستبعد نہ سمجھو۔ مرنے کے بعد لوگوں کو قبروں سے اٹھا کھڑا کرنا، اللہ کے لئے ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ تم اس دنیا میں برابر دیکھتے ہو کہ زمین بالکل خشک پڑی ہوتی ہے، اس میں سبزہ اور روئیدگی کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہوتا کہ اللہ کسی طرف سے ہوائوں کو بھیجتا ہے۔ وہ تمہارے دیکھتے دیکھتے بادلوں کو ابھارتی اور جمع کرتی ہیں۔ پھر ہم ان کو اس مردہ زمین کی طرف ہانک کے لے جاتے اور اس کو سیراب کردیتے ہیں جس سے اس کے سرگوشے میں ازسر نو زندگی نمودار ہوجاتی ہے۔ فرمایا کہ کذلک النشور، اسی طرح قیامت کے دن لوگوں کا ازسر نوجی کو اٹھنا ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ مرنے اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کا مشاہدہ قوم کو اس دنیا میں اللہ برابر کرا رہا ہے تو تم قیامت کو ناممکن کیوں خیال کیے بیٹھے ہو !…یہ حقیقت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم واضح کرتے آرہے ہیں کہ یہ دنیا اپنے وجود میں ان تمام حقائق کی تعلیم کے لئے ایک بہترین تعلیم گاہ ہے جن کی قرآن تعلیم دے رہا ہے۔ اگر انسان عقل و بصیرت سے کام لے تو قرآن کے ہر دعوے کی دلیل اس کو اپنے دہنے بائیں سے مل سکتی ہے۔ اس آیت میں اسلوب کلام بھی قابل توجہ ہے۔ پہلے ماضی کا صیغہ ’ ارسل ‘ استعمال ہوا ہے۔ پھر مضارع تثیر آگیا۔ اس کے بعد ’ سقنا ‘ اور احیینا ‘ متکلم کے صیغے آگئے۔ اسلوب کا یہ تنوع اپنے اندر گوناگوں خوبیاں رکھتا ہے جن کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیے کہ ماضی تو صرف بیان واقعہ کے لئے آتا ہے۔ مضارع میں تصویرِ حال کا پہلو بھی ہوتا ہے اور متکلم کا صیغہ التفات و عنایات خاص پر دلیل ہوتا ہے۔
Top