بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Ibrahim : 1
لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ
لِّيُنْذِرَ : تاکہ ( آپ) ڈرائین مَنْ : جو كَانَ : ہو حَيًّا : زندہ وَّيَحِقَّ : اور ثابت ہوجائے الْقَوْلُ : بات (حجت) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : جمع کافر
تاکہ وہ ان لوگوں کو آگاہ کردے جن کے اندر زندگ ہے اور کافروں پر حجت تمام ہوجائے۔
آیت 70 ’ ینذر ‘ کا فاعل نبی و ہیں۔ یہ اس قرآن مبیں کے اتارے جانے کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ قرآن اس لئے اتارا ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ ان لوگوں کو انداز کردے جن کے اندر حیات عقلی و روحانی کی رمق باقی ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھائیں گے البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر حجت پوری ہوجائے گی اور وہ خدا کے ہاں یہ عذر نہیں کرسکیں گے کہ ان کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اور نہ وہ ہدایت اختیار کرنے والے بنتے۔ فعل ’ اندار ‘ یہاں اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ’ حی ‘ سے دل کے زندہ مراد ہیں۔ ایک منذرا انداز کرتا تو سب کو ہے لیکن اس کا انداز کارگر صرف انہی لوگوں پر ہوتا ہے جن کی فطرت زندہ ہوتی ہے۔ اس لئے کہ بات پر دھیان وہی کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا ہے۔ ’ انما تنذر من اتبع الذکر (یس : 11) (تم انہی کو ڈرا سکتے ہو جو نصیھت پر دھیان کریں)۔ چونکہ حقیقت کے اعتبار سے زندہ وہی لوگ ہوتے ہیں اس وجہ سے قرآن نے انہی کو زندہ کہا ہے۔ جو اس وصف سے محروم ہیں وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہیں۔ چناچہ ایسے لوگوں کی نسبت فرمایا ہے :’ وما انت بمسمع من فی القبور ‘ (فاطر : 22) اس اسلوب بیان میں نبی ﷺ کے لئے یہ تسلی بھی ہے کہ تمہارا کام زندوں کو جگانا ہے، مردوں کو جگانا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ مضمون مختلف اسلوبوں سے قرآن میں بار بار بیان ہوا ہ۔ ’ القول ‘ سے مراد وہ قول ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے چیلنج کے جواب میں فرمایا تھا کہ میں بنی آدم کی ہدایت کے لئے اپنی کتاب اور اپنی ہدایت نازل کروں گا۔ پھر جو اس کے بعد بھی تیری پیروی کریں گے تو میں ان سب کو تیرے سمیت جہنم میں بھردوں گا۔
Top