Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 22
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس ۔ جس شَرَحَ اللّٰهُ : اللہ نے کھول دیا صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر نُوْرٍ : نور مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اپنے رب کی طرف سے فَوَيْلٌ : سو خرابی لِّلْقٰسِيَةِ : ان کے لیے ۔ سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مِّنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی یاد اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
کیا وہ جن کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہیں (اور وہ جن کے دل سخت ہوچکے ہیں یکساں ہوں گے ؟) تو ہلاکی ہے ان کے لئے جن کے دل اللہ کی یاد دہانی قبول کرنے کے معاملے میں سخت ہوچکے ہیں ! یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں
آیت 22) فیض و است پہنچتا یہ پیغمبر ﷺ کو تسلی دی ہے کہ فیض ہمیشہ بقدر استعداد و صلاحیت پہنچتا یہ۔ اللہ تعالیٰ کا ابر کرم یوں تو ہر خشک و تر پر برستا ہے لیکن ہر زمین اس سے یکساں مستقید نہیں ہوتی جس زمین میں صاحلیت ہوتی ہے وہ تو اس سے لہلہا اٹھتی ہے لیکن جو بنجر ہوتی ہے وہ یوں ہی ویران پر ملسی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح قرآن کی صورت میں جو بارش ہوئی ہے اس کا فیض بھی ہر شخص کو یکساں نہیں پہنچے گا بلکہ جنہوں نے اپنی فطری صلاحیتیں زندہ رکھی ہیں اللہ اس کے ذریعے سے ان کے سینے اسلام کے لئے کھول دے گا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنی فطری صلاحیتیں ضائع کر کے اپنے دل پتھر بنا لئے ہیں وہ اس کے فیض سے محروم ہی رہیں گے اور ایسے سنگدلوں کے لئے، جو اللہ کی تذکیر کے بعد بھی پتھر بنے رہ گئے، صرف ہلاکی ہے۔ ایسے لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں اس لئے کہ انہوں نے رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ پورے دن کی روشنی میں خدا کی رہنمائی کے باوجود اپنی راہ کھوئی ہے۔ اس سوالیہ جملہ میں بھی خبر محذوف ہے جس کو ترجمہ میں ہم نے کھول دیا۔ من ذکر اللہ یہاں من تذکر اللہ ایاھم کے مفہوم میں ہے یعنی جن کے دل خدا کی طرف سے یاد دہانی کے باوجود پتھر بنے رہے۔
Top