Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 2
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَؕ
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ : بیشک ہم نے نازل کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبَ : یہ کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ فَاعْبُدِ اللّٰهَ : پس اللہ کی عبادت کرو مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهُ : اسی کے لیے الدِّيْنَ : عبادت
بیشک ہم نے یہ کاتب تمہاری طرف قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے تو تم اللہ ہی کی بندگی کرو ،
(آیت) حق کے معنی یہاں قول فیصل کے اور دین کے معنی اطاعت کے ہیں۔ ان الفاظ کے مختلف معانی کی وضاحت ان کے محل میں ہوچکی ہے۔ توحید اور شرک کے باب میں قول فیصل یہ آنحضرت ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے۔ اللہ کی توحید کے بارے میں مبتدعین و مشرکین نے جو اختلافات پیدا کردیئے تھے اس کتاب نے انکا فیصلہ کردیا تو تم اللہ کی بندگی اس کی خالص اطاعت کے ساتھ کرو۔ اطاعت خالص کا سزا وار اللہ ہی ہے وہی سب کا خالق اور پروردگار ہے تو وہی سب کی عبادت کا بھی حقدار ہے اور جو عبادت کا حق دار ہے وہی اطاعت کا بھی حق دار ہے۔ یہ بالکل بےتکی بات ہے کہ عبادت کا حق دار کوئی ہو، اطاعت کا حقدار کوئی اور بن جائے اور جس طرح عبادت کا خالص ہونا ضروری ہے، اسی طرح اطاعت بھی بےآمیز ہونی ضروری ہے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے خلاف جائز نہیں ہے۔ پیغمبر ﷺ کو خطاب کر کے یہ بات فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کے نازل ہوجانے کے بعد تمہاری راہ معین ہوگئی۔ تم اسی راہ پر چلو اگر دوسرے تمہارا ساتھ دیتے ہیں تو فبہا نہیں دیتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ تمہایر اوپر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
Top