Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 36
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ١ؕ وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ
اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِكَافٍ : کافی عَبْدَهٗ ۭ : اپنے بندے کو وَيُخَوِّفُوْنَكَ : اور وہ خوف دلاتے ہیں آپ کو بِالَّذِيْنَ : ان سے جو مِنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوا وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ! اور یہ تم کو ان سے ڈراتے ہیں جو اس کے سوا انہوں نے بنا رکھے ہیں اور جس کو خدا گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں بن سکتا
6۔ آگے کا مضمون آیات 52-36 آگے نبی ﷺ کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ تمہیں اپنے دیویوں دیوتائوں سے ڈرا رہے ہیں ان کو بتا دو کہ اس رب کے سوا جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے کوئی بھی مجھے نہ نفع پہنچا سکتا نہ نقصان وہ جو کچھ کرسکتے ہیں، ان سے کہو کہ وہ کر دیکھیں تم اپنا کام بےخوف و خطر کئے چلے جائو تمہارے اوپر صرف تمہارے فرض کی ذمہ داری ہے ان کے کفر و ایمان کی کوئی ذمہ داری متہارے اوپر نہیں ہے۔ اگر ان لوگوں و مزعومہ شفاعت پر بھروسہ ہے تو اس کی حقیقت بھی ان پر واضح کردو اور اگر ان کو اپنی موجودہ دنیوی کامیابیوں کا غرہ ہے تو اس کے بےثباتی بھی ان کو بتا دو … اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 7۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت آیت 37-36 بندے کے لئے اللہ کی حفاظت کافی ہے یہ آنحضرت ﷺ کے لئے تسلیل ہے کہ یہ مشرکین تمہاری دعوت توحید پر تم کو اپنے اصنام و آلہہ کے قہر و غضب سے ڈراتے ہیں کہ تم نے ان کی مخالفت جاری رکھی تو وہ کسی مصیبت میں پھنسا دیں گے۔ کیا ان نادانوں کے نزدیک اللہ اپنے بندے کی حفاظت و کفالت کے لئے کافی نہیں یہع کہ ان کے اصنام و آلہہ اس کو خطرے میں ڈال دیں گے ! جو بندہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کی حفاظت کے لئے کافی ہے۔ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی چیز بھی اس کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتے۔ اگر کوئی اس اندیشہ میں مبتلا ہے کہ کوئی چیز اس کو اللہ تعالیٰ کے علی الرغم نقصان پہنچا سکتی ہے تو وہ خدا کو اپنی حفاظت و کفالت کے لئے کافی نہیں سمجھتا اور یہ چیز بالبداہت کفر و شرک ہے۔ ومن یضل اللہ … الایۃ یہ ان شرک پرستوں کی اس جہالت پر ملامت ہے کہ یہ لوگ جو ایسی سفاہت کی باتیں کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شامت اعمال کے سبب سے ان پر خدا کی مار پڑچکی ہے۔ یہ اللہ کے قانون کی زد میں آتے ہوئے لوگ ہیں اس وجہ سے اللہ نے ان کو گمراہ کردیا ہے اور جن کو خدا نے گمراہ کردی، ان کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں بن سکتا۔ یہ اس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جس کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم کرتے آ رہے ہیں اس کا حالہ یہاں آنحضرت ﷺ کے پہلو سے دیا گیا ہے کہ ایسے اور پھر سے لوگوں کی باتوں کی پروا نہ کرو۔ ایسے لوگوں کی راہ راست پر لانے والا کوئی بھی نہیں بن سکتا۔ الیس اللہ بعزیز ذی انتقام یعنی اگر خدا اپنے بندوں کے لئے کافی نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ عزیز نہیں ہے حالانکہ وہ عزیز ہے اس لئے کہ جو عزیز نہیں ہے خدا نہیں ہوسکتا ساتھ ہی وہ ذی انتقام بھی ہے یعنی نہ وہ اپنے حقوق پر ڈاکہ ڈلانے والوں کو چھوڑنے والا ہے اور نہ اپنے بندوں پر تعدی کرنے والوں کو معاف کرنے والا ہے۔ بلکہ وہ ایک ایک چیز کا بدلہ لینے والا ہے۔ اس بات کو سوالیہ اسلوب میں اس لئے پیش کیا ہے کہ یہ صفتیں خدا کی بالکل بدیہی صفتیں ہیں۔ ان کے بغیر خدا کا تصور نہیں کیا جاسکتا تو جب خدا عزیز و مقتدر بھی ہے اور صاحب عدل و انتقام بھی تو اس کے بندوں کو اس پر پورا بھروسہ رکھنا چاہئے وہ ہر خطرے سے ان کی حفاظت کرے گا۔
Top