Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم اس سفر میں نکلو تو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں قصر کرو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈال دیں گے۔ بیشک یہ کفار تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں۔
آگے کا مضمون۔ آیات 101 تا 104: آگے صلوۃ الخوف یعنی جنگ کے خطرات کے دوران نماز باجماعت کی شکل بتائی گئی ہے۔ جہاد کے اس ذکر کے ساتھ نماز، بالخصوص نماز باجماعت، کے اس اہتمام سے کوئی حقیقتیں سامنے آتی ہیں جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کریں گے۔ جہاد کی اصل روح نماز ہے : پہلی یہ کہ اس سے نماز کی دین میں عظمت و اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس سورة کی آیت 77 کے نماز اور جہاد کے باہمی ظاہر ظاہری و باطنی تعلق پر ہم گفتگو کرچکے ہیں۔ یہاں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نماز وہ چیز ہے کہ جنگ کے خطرات کے اندر بھی یہ نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں جنگ، خونریزی اور لوٹ مار کے لیے نہیں ہے بلکہ جیسا کہ دوسرے مقامات میں واضح ہوچکا ہے، اس لیے ہے کہ خدا کی زمین سے اس ظلم و جبر کا خاتمہ کیا جائے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی بندگی سے روکنے کے لیے اللہ کے دشمنوں کی طرف سے برپا کیا جاتا ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو جہاد کی اصل روح نماز ہی ہے۔ اسی سے جہاد، اللہ کی عبادت بنتا ہے۔ اگر اس کے اندر یہ روح نہ ہو تو یہ بھی اسی طرح فساد فی الارض ہے جس طرح اللہ کے باغیوں کی ہر جنگ گساد فی الارض ہے۔ اس روح کے تحفظ کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ عین میدان جنگ میں بھی تاحد امکان نماز سے غفلت نہ ہوتا کہ ہر مجاہد کو اس حقیقت کی اد دہانی ہوتی رہے کہ اس کی میدان جنگ کی صفیں بھی اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے اس کی نماز کی صفوں سے مختلف نہیں ہیں۔ نماز باجماعت کی اہمیت : دوسری یہ کہ اس سے نماز باجماعت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ سورة بقرہ کی آیت 239 میں فان خفتم فرجالا اور کبانا الایۃ کے تحت یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ لڑائی کے دوران میں حالات بہت پر خطر ہوں۔ نماز اس کے آداب کے مطابق ادا کرنی ممکن نہ ہو تو سوار، پیادہ، کھڑے، بیٹھے، چلتے، بھاگتے جس طرح ممکن ہو ادا کرنے کی کوشش کی جائے، یہاں تک کہ قبلہ رو ہونے کی پابندی بھی ضروری نہیں ہے۔ لیکن ان سب رخصتوں کے ساتھ زیر بحث آیات سے یہ حقیقت بھی واضح ہو رہی ہے کہ اگر نماز باجماعت کا اہتمام ممکن ہو تو میدان جنگ میں بھی اس کا اہتمام باقی رکھا جائے۔ چناچہ اس کے لیے قرآن نے ایک ایسی شکل بیان فرمائی ہے جس سے نماز باجماعت کا مقصد بھی حاصل ہوتا ہے اور دفاع کا بھی۔ دفاع کی اہمیت : تیسری یہ کہ اس سے دفاع کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اول تو یہی بات اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے نماز جیسی اہم عبادت میں تخفیف فرما دی۔ (یہ امر ملحوظ رہے کہ نماز میں قصر کی رخصت اصلاً سفر جہاد کے تعلق ہی سے نازل ہوئی ہے۔ دوسرے سفروں میں اس کی حیثیت اصل کی نہیں بلکہ، جیسا کہ نبی ﷺ کے ایک ارشاد سے واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک صدقے کی سی ہے۔ ہم اس پر آگے بحث کریں گے)۔ دوسری یہ کہ نماز کی جو شکل بیان فرمائی ہے اس میں اس امر کا پورا اہتمام ملحوظ ہے کہ دشمن کو اس سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کردینے کا کوئی موقع نہ ملے۔ گویا اس مضمونِ جہاد کے آغاز میں مسلمانوں کو خذوا حذرکم (اپنے سامان دفاع سے لیس رہو) کا جو حکم دیا تھا تو اس کا اہتمام نماز میں بھی پوری طرح قائم رکھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دین فطرت میں توکل اور تدبیر، شجاعت اور حکمت، تہور اور احتیاط کا کیسا معتدل اور حسین امتزاج ہے کہ نماز بھی جہاد بن جاتی ہے۔ پیغمبر ﷺ کے اقتداء کی اہمیت : چوتھی یہ کہ اس سے نبی ﷺ کی اقتدا کے جذبے اور اس کی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔ آگے ہم واضح کریں گے کہ نماز کی یہ خاص شکل جو یہاں بیان ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میدان جنگ میں نبی ﷺ کی موجودگی کی صورت میں صحابہ کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ حضور نماز باجماعت کی امامت کرائیں اور کوئی مسلمان اس جماعت کی شرکت سے محروم رہنے پر راضی ہو۔ صحابہ کا یہ جذبہ چونکہ فطری تھا اور دین میں اس جذبے کی اہمیت بالکل واضح ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نماز کی ایک ایسی شکل بیان فرما دی جس سے اس جذبے کی حوصلہ افزائی بھی ہو اور دفاع کے مقصد کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس روشی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔ وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا۔ نماز میں قصر کی اجازت دفاع کے تعلق سے : اوپر ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ نماز میں قصر کی یہ اجازت خذوا حذرکم کے حکم کے تعلق سے نازل ہوئی۔ جب حکم ہوا کہ اپنے سامانِ دفاع سے لیس اور کفار کے مقابلے کے لیے مستعد رہو تو یہ سوال آپ سے آپ پیدا ہوا کہ اس حکم میں اور نماز میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی۔ کیونکہ نماز کی حالت میں دفاع کے لوازم پورے نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے ایک تو نماز میں قصر کی اجازت ہوئی اور آگے کی آیات میں نماز باجماعت اور بیماری اور بارش وغیرہ کے حالات میں جو شکلیں اختیار کی جانی چاہئیں وہ بیان ہوئیں۔ قصر کی شکل جو نبی ﷺ اور صحابہ کے عملی تواتر سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جو نمازیں چار رکعت والی ہیں وہ دو رکعت پڑھی جائیں۔ مغرت اور فجر میں قصر نہیں ہے۔ قصر کی اجازت ایک رخصت ہے : فلیس علیکم جناح، کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ قصر کی اجازت ایک قسم کی رخصت ہے۔ رخصتوں کے متعلق سورة بقرہ کی تفسیر میں، ایک مستقل فصل میں، ہم واضح کرچکے ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھانے کو تقوی کے خلاف سمجھنا دین میں تشدد اور غلو کے رجحان کی غمازی کرتا ہے جس کو قرآن و حدیث دونوں میں مذموم ٹھہرایا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی غلو سے خالی نہیں قرار دی جاسکتی کہ کسی رخصت کو عزیمت اور وجوب کا درجہ دے دیا جائے یہاں تک کہ اس کی خلاف ورزی سے گناہ لازم آئے۔ اس باب میں تفصیل کے طالب مذکورہ فصل پر ضرور ایک نظر ڈال لیں۔ قصر کی اجازت سفرِ جہاد ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ قصر کی یہ اجازت اس میں شبہ نہیں ہے کہ نازل تو ہوئی ہے سفر جہاد ہی کے تعلق سے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ بس سفر جہاد ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ سفر کوئی بھی ہو اس میں فی الجملہ بےاطمینانی، آپا دھاپی اور سروسامان کی فکر ہوتی ہی ہے۔ بس یہ فرق ہوتا ہے کہ کسی میں کم، کسی میں زیادہ، یہ عین ممکن ہے کہ جہاد کا ایک سفر زیادہ اطمینان سے گزر جائے اور تجارت یا حج کے سفر میں زیادہ الجھنیں پیش آجائیں۔ اس اشتراکِ علت کی وجہ سے دوسرے سفر بھی اصلاً نہ سہی تبعاً اسی حکم میں داخل ہیں۔ چناچہ اسی بنیاد پر نبی ﷺ نے دوسرے قسم کے سفروں میں بھی قصر کی اجازت دی۔ خود بھی اس پر عمل فرمایا اور صحابہ نے بھی اس پر عمل کیا۔ یہ بات بھی یہاں ملحوظ رکھنے کی ہے کہ الفاظ یہاں واذا ضربتم فی الارض (جب تم سفر میں نکلو) کے استعمال ہوئے ہیں جو ہر سفر کے لیے عام ہیں۔ اس میں سفر جہاد کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ جہاد کے سفر کے لیے خاص لفظ اذا ضربتم فی سبیل اللہ (جب تم اللہ کی راہ میں نکلو) کا ہے جو آیت 94 میں گزر چکا ہے۔ اس وجہ سے الفاظ کا تقاضا یہی ہے کہ قصر کی اجازت ہر سفر کے لیے عام ہو رہی اس کے بعد ان خفتم کی شرط تو وہ صرف آیت کے موقع نزول کے اعتبار سے اس علت کو ظاہر کر رہی ہے جس کے سبب سے یہ اجازت مرحمت ہوئی۔ اس سے یہ بات تو ضرور نکلتی ہے کہ یہ رخصت بہرحال رخصت ہے جو حالات کے تابع ہے لیکن یہ بات نہیں نکلتی کہ یہ سفر جہاد ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ تقریبا یہی صورت تعدد ازواج والے مسئلے میں بھی ہے جس کی بحث سورة کے شروع میں گزر چکی ہے۔ اس پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
Top