Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 156
وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًاۙ
وَّبِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب وَقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا (باندھنا) عَلٰيُ : پر مَرْيَمَ : مریم بُهْتَانًا : بہتان عَظِيْمًا : بڑا
اور بوجہ ان کے کفر کے اور بوجہ ان کے مریم پر ایک بہتان عظیم لگانے
تفسیر آیات 156۔ 158: وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيْمًا۔ وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا۔ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا۔ " وبکفرہم " کا عطف : وبکفرہم کا عطف اوپر کے سلسلہ کلام پر ہے۔ بیچ میں جملہ معترضہ آگیا تھا اس کے ختم ہونے کے بعد پھر فہرست جرائم شروع ہوگئی : حضرت مریم پر بہتان کی نوعیت : " وقولہم علی مریم " میں جس بہتان عظیم کا ذکر ہے اس کے متعلق سورة آل عمران کی تفسیر میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ یہود نے یہ الزام سیدنا مسیح کے دور میں لگانے کی جرات نہیں کی۔ یہ تمام تر بعد کی ایجادات میں سے ہے۔ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ، رسول اللہ کا لفظ ہمارے نزدیک یہود کے قول کا جزو نہیں ہے بلکہ ان کے جرم کی سنگینی کو واضح تر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سیدنا مسیح کے مرتبہ کو واضح فرما دیا ہے۔ واقعہ قتل مسیح کی تردید کا مقصد : وما قتلوہ سے عزیزا حکیما تک جملہ معترضہ ہے۔ اس میں یہود کے دعوائے قتل مسیح کی فوری تردید کردی گئی ہے۔ اس فوری تردید سے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ کے رسول اس کی حفاظرت میں ہوتے ہیں، ان کے خلاف اس کے دشمنوں کی چالیں خدا کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ اس وجہ سے یہود کا یہ دعوی کہ انہوں نے ان کو قتل کیا، یا سولی دی بالکل بےبنیاد ہے۔ وہ اپنی اس شرارت میں بالکل ناکام رہے۔ البتہ ایک جھوٹے دعوے کا بار اپنے سر لے کر ہمیشہ کے لیے مبغوض و ملعون بن گئے۔ دوسرا یہ کہ نہیں کہیں مسیح کے قتل کا واقعہ پیش آیا نہ سولی کا لیکن پال کے متبع نصاری نے اس فرضی افسانے کو لے کر اس پر ایک پوری دیومالا تصنیف کر ڈالی اور اس طرح پرائے شگون پر خود اپنی ناک کٹوا بیٹھے۔ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ کا مفہوم : وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ، یعنی یہود جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ تو وہ کر نہ پائے البتہ صورت حالات ایسی بنا دی گئی کہ وہ یہی سمجھے انہوں نے مسیح کو سولی دلوادی ہے۔ یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ اس کی شکل کیا ہوئی۔ جس واقعہ کے بارے میں خود ان لوگوں کے درمیان، جیسسا کہ انجیلوں سے ثابت ہے، شدید اختلاف ہو جو اس وقت موجود تھے اب دوہزار سال کے بعد اس کی شکل متعین کرنے کی کوشش کرنا محض اٹکل کے تیر تکے چلانا ہے۔ قطعی بات بس اتنی ہی ہے جو قرآن نے بتائی ہے کہ حضرت مسیح کو یہود نہ تو قتل کرسکے نہ سولی دے سکے بلکہ معاملہ ان کے لیے گھپلا کردیا گیا۔ واقعہ کی نوعیت انجیلوں کی روشنی میں : واقعے کی جو روداد انجیلوں میں موجود ہے اس سے چند باتیں بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس وقت ملک پر رومیوں کی حکومت تھی اور وہی تمام سیاسی و تعزیری اختیارات کے مالک تھے۔ دوسری یہ کہ رومی حکام اور پولیس کو نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح کو سولی دینے سے کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ رومی حاکم پیلاطوس اور دوسرے حکام اس ظلم کی ذمہ داری کسی طرح بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تیسری یہ کہ گرفتاری اور سزا کے وقت کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں وہ ایسے ہنگامہ خیز ہیں کہ ایسے حالات کے اندر عوام کو ہر بات باور کرائی جاسکتی تھی اور وہ بڑی آسانی سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ مان سکتے تھے۔ چوتھی یہ کہ سولی کے مزعومہ واقعے کے بعد بھی انجیلوں سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کے شاگردوں نے ان کو دیکھا۔ پانچویں یہ کہ سیدنا مسیح کے وعظوں، ان کے معجزوں اور ان کے کارناموں کی تو بڑی دھوم تھی لیکن اس وقت تک صورۃً نہ وہ عوام ہی میں اچھی طرح متعارف تھے اور نہ رومی حکام اور ان کی پولیس کے آدمی ہی ان کو پہچانتے تھے۔ چھٹی یہ کہ خود نصاری میں بھی ایک جماعت شروع سے اس بات کی قائل رہی ہے کہ سولی حضرت مسیح کو نہیں دی گئی بلکہ ایک اور ہی شخص کو دی گئی لیکن مشہور یہ کردیا گیا کہ انہی کو سولی دی گئی۔ ان تمام باتوں کے دلائل خود انجیلوں میں موجود ہیں اور نہایت آسانی سے ہم ان کو جمع کرسکتے ہیں لیکن اس سے بس اتنی ہی بات ثابت ہوگی جو قرآن نے بتادی ہے کہ معاملہ ان کے لیے گھپلا کردیا گیا۔ رہا یہ سوال کہ اس گھپلے کی شکل کیا ہوئی تو اس باب میں جو کچھ بھی کہا جائے گا اس کی حیثیت ظن و گمان سے کچھ زیادہ نہیں ہے اور ہم گمان کے پیچھے پڑنا پسند نہیں کرتے۔ مسیحی پرائے شگون پر اپنی ناک کٹوا بیٹھے : وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ سے مراد نصاری ہیں۔ چناچہ واقعہ یہ ہے کہ نصاری میں نفس واقعے سے متعلق بھی، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، بڑا اختلاف ہے اور اس پر جو دیومالا انہوں نے تصنیف کی ہے اس میں بھی بڑے اختلافات ہیں اور یہ اختلاف قدرتی نتیجہ ہے اس بات کا کہ انہوں نے اپنے سارے علم کلام کی بنیاد حقیقت کے بجائے محض ظن پر رکھی اور اس طرح جس سولی سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیح کو محفوظ رکھا نصاری نے اس پر خود چڑھ کر خودکشی کرلی۔ رفع سے مجرد ترقی درجات لینا عربیت کے خلاف : بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا۔ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ کے ٹکڑے پر ہم سورة آل عمران کی تفسیر میں بحچ کرچکے ہیں۔ وہاں ہم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سے مجرد ترقی درجات و مراتب لینا عربیت کے خلاف ہے۔ عزیز و حکیم کی صفات کے حوالے سے مقصود یہاں یہ ہے کہ خدا جب کسی کام کو کرنا چاہے تو وہ اپنے ارادے پر غالب ہے۔ اس کے لیے کوئی راہ بھی بند نہیں ہے۔ وہ جہاں سے چاہے اپنی تدبیر و حکمت سے راہ کھول لیتا ہے۔ اصل سلسلہ کلام : یہ امر ملحوظ رہے کہ اصل مسئلہ زیر بحث ان آیات میں حضرت مسیح کے قتل یا سولی کی تردید یا ان کے ردوقبول کا نہیں ہے۔ یہ بات، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، محض ایک ضمنی بات کے طور پر، سلسلہ کلام کے بیچ میں آگئی ہے۔ اصل سلسلہ کلام جو یسئلک اھل الکتاب سے چل رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اہل کتاب قرآن اور آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لانے کے لیے جو بہانے بنا رہے ہیں وہ سب بہانے ان کی اس خوئے بد کے کرشمے ہیں جو ابتدا ہی سے ان کی سرشت میں داخل ہے۔ انہوں نے ایک سے ایک بڑھ کر ایک معجزے دیکھے لیکن کوئی معجزہ ان کو مطمئن نہ کرسکا۔ انہوں نے ہمیشہ عہد شکنی کی، ہمیشہ تکذیب کی اور ہر حق کا مقابلہ ضد اور مکابرت، تکبر اور سرکشی سے کیا۔ یہاں تک کہ مریم پر بہتان لگایا اور خدا کے رسول مسیح ابن مریم کے قتل کرنے کے خود مدعی ہیں۔۔ جب بات یہاں تک پہنچی تو ضمنی طور پر قتل اور سولی کے واقعہ کی تردید فرما دی اور ساتھ ہی نصاری کو بھی تنبیہ فرما دی کہ انہوں نے بھی بےسمجھے بوجھے اسی جھوٹ کو سچ مان کر اس پر پورے علم کلام کا محل تعمیر کردیا۔
Top