Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا : کہ نہ تُقْسِطُوْا : انصاف کرسکوگے فِي : میں الْيَتٰمٰى : یتیموں فَانْكِحُوْا : تو نکاح کرلو مَا : جو طَابَ : پسند ہو لَكُمْ : تمہیں مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں مَثْنٰى : دو ، دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ : اور چار، چار فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تمہیں اندیشہ ہو اَلَّا : کہ نہ تَعْدِلُوْا : انصاف کرسکو گے فَوَاحِدَةً : تو ایک ہی اَوْ مَا : یا جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : لونڈی جس کے تم مالک ہو ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَلَّا : کہ نہ تَعُوْلُوْا : جھک پڑو
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہارے لیے جائز ہوں ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کرلو اور اگر ڈر ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک پر بس کرو یا پھر کوئی لونڈی جو تمہاری ملک میں ہو۔ یہ طریقہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۔ یتامیٰ کا مفہوم :۔ ’ یتامی ‘ کا لفظ ان نابالغوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کا باپ فوت ہوچکا ہو، عام اس سے کہ وہ نابالغ، لڑکے ہیں یا لڑکیاں، صرف نابالغ لڑکیوں کے لیے اس کا استعمال نہ عربی زبان میں معلوم ہے، نہ قرآن مجید اور حدیث میں۔ قرآن میں یہ لفظ کم از کم پندرہ جگہ اسی جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہے لیکن کسی جگہ بھی صرف یتیم بچیوں کے مفہوم میں نہیں استعمال ہوا ہے۔ مَا طَابَ لَكُمْ کا مفہوم : مَا طَابَ لَكُمْ کے معنی بعض اہل تاویل نے مَا حَلَّ لکم (یعنی جو عورتیں تمہارے لیے جائز ہوں) لیے ہیں۔ یہ مفہوم لفظ کے استعمالات کے مطابق ہے، اگرچہ ازروئے لغت و از روئے استعمال اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ”جو راضی ہوں“ آگے والی آیت میں فَانْ طِبْنَ لَکُمْ کے الفاظ سے اس مفہوم کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ نیز یہ مفہوم بھی اس کا ہوسکتا ہے کہ جن سے تمہاری زندگی میں خوشگواری پیدا ہو۔ یہاں یہ تمام معانی بنتے ہیں لیکن ہم نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ موقع و محل سے یہ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ نساء سے مراد یتامی کی مائیں ہیں :۔ نساء کا لفظ اگرچہ ظاہر میں عام ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اس سے عام عورتیں مراد نہیں ہیں بلکہ یتیموں کی مائیں مراد ہیں۔ عام بول کر خاص مراد لینا، بشرطیکہ قرینہ موجود ہو، عربی زبان میں بہت معروف ہے۔ قرآن میں اس کی مثالیں بکثرت ہیں۔ یہ قرینہ چونکہ مضمون کے تدریجی ارتقا سے خود بخود واضح ہوجائے گا اس وجہ سے یہاں اس کے دلائل کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔ مصلحت کے لیے تعدد ازواج کی اجازت۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم (مخاطب یتیموں کے اولیاء اور سرپرست ہی ہیں) بربنائے احتیاط یہ اندیشہ رکھتے ہو کہ تمہارے لیے یتمیوں کے مال اور ان کے واجبی حقوق کی کماحقہ نگہداشت ایک مشکل کام ہے، تم تنہا اپنی ذمہ داری پر اس سے بحسن و خوبی عہدہ برآ نہیں ہوسکتے، اگر یتیموں کی ماں بھی اس ذمہ داری میں تمہارے ساتھ شریک ہوجائے تو تم اس فرض سے عمدہ طریقے پر عہدہ برآ ہوسکتے ہو اس لیے کہ یتیموں کے ساتھ جو قلبی لگاؤ اس کو ہوسکتا ہے، کسی دوسرے کو نہیں ہوسکتا اور ان کے حقوق کی نگیداشت جس بیداری کے ساتھ وہ کرسکتی ہے کسی اور کے لیے ممکن نہیں تو ان میں سے جو تمہارے لیے جائز ہوں، ان سے تم نکاح کرلو، بشرطیکہ عورتوں کی تعداد کسی صورت میں چار سے زیادہ نہ ہونے پائے اور تم ان کے درمیان عدل قائم رکھ سکو۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ عدل نہیں قائم رکھ سکو گے تو پھر ایک سے زیادہ نکاح نہ کرو۔ فرمایا کہ یہ طریقہ تمہیں حق و انصاف پر استوار رکھنے کے نقطہ نظر سے زیادہ صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیویوں کے معاملے میں عدل کی شرط ایک ایسی اٹل شرط ہے کہ یتیموں کے حقوق کی نگہداشت جیسی اہمی دینی مصلحت کے پہلو سے بھی اس میں کسی لچک کی شریعت نے گنجائش نہیں رکھی ہے۔ ایک شب ہے کا ازالہ :۔ یہاں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوگا کہ آیت کی تاویل اگر یہ ہے جو بیان ہوئی تو اس سے تو صاف یہ بات نکلتی ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت مطلق نہیں بلکہ یتیموں کی مصلحت کے ساتھ مقید ہے۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہاں مسئلے کے بیان کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ یتیموں کی مصلحت کی قید کے ساتھ تعدد ازواج کی اجازت دی گئی ہو اور بصورت دیگر یہ ممنوع ہو بلکہ یہ ہے کہ یتامیٰ کی مصلحت کے نقطہ نظر سے تعدد ازواج کے اس رواج سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے جو عرب میں تھا البتہ اس کو چار تک محدود کردیا گیا ہے۔ اگر مقصود تعدد ازواج کو یتیموں کی مصلحت کے ساتھ مقید کرنا ہوتا تو اس کے لیے اسلوب بیان اس سے بالکل مختلف ہوتا۔ اس اسلوب بیان سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ تعدد ازواج کی مروجہ وقت صورت پر ایک قید عائد کر کے اس سے ایک معاشرتی مصلحت میں فائدہ اٹھانے کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے لیکن عاشرتی مصلحت صرف ایک یتیموں ہی کی مصلحت نہیں ہے بلکہ اور بھی ہوسکتی ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس میں اس سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت ہو۔ ایک اور شب ہے کا جواب : ممکن ہے یہاں ایک اور شبہ بھی بعض لوگوں کو ہو کہ ہم نے یہاں ان لوگوں کے قول کو جنہوں نے یتامی سے یتیم لڑکیوں کو مراد لیا، محض اس دلیل کی بنیاد پر نظر انداز کردیا ہے کہ اس لفظ کا استعمال صرف لڑکیوں کو مراد لیا ہے، محض اس دلیل کی بنیاد پر نظر انداز کردیا ہے کہ اس لفظ کا استعمال صرف لڑکیوں کے لیے معروف نہیں ہے در آنحالیکہ نساء سے ہم نے یتیموں کی ماؤں کو مراد لیا ہے جب کہ اس لفظ کا بھی استعمال اس معنی کے لیے معروف نہیں ہے۔ اس شب ہے کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اس قول کو صرف اسی بنیاد پر نظر انداز نہیں کیا ہے کہ لغت اور استعمال اس کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ یہ معنی لینے میں آیت کی تاویل صحیح نہیں بنتی۔ کسی شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ اگر وہ ایک یتیم بچی سے نکاح کرے گا تو چونکہ اس کا باپ یا بھائی موجود نہیں ہے اس وجہ سے وہ اس کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا تو اس کو یہ ہدایت ہونی تھی کہ وہ اس وقت تک اس کے ساتھ نکاح کرنے میں توقف کرے جب تک وہ بالغ ہو کر اپنے حقوق و فرائض کو اپنے اختیار و ارادے کے ساتھ سمجھ نہ سکے یا صرف یہ ہدایت ہونی تھی کہ ایسا شخص کسی اور عورت سے نکاح کرے، اس کے تعدد ازواج کی اجازت اور اس کے قیود و شرائط کے بیان کے لیے کوئی ضرورت داعی نہیں تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک یتیمہ بالغ ہونے کے بعد بھی باپ بھائی کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے بےبس ہی ہوتی ہے تو یہ ہدایت ہونی تھی کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جن کے باپ بھائی زندہ ہوں، اس لیے کہ اس قسم کی بےبسی دوسری عورتوں کو بھی لاحق ہوسکتی ہے اگرچہ ان کو یتیمی کی بےبسی سے سابقہ نہ پیش آیا ہو۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر کسی کی نگرانی میں کوئی یتیمہ ہو، وہ اس کی اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے اور اس کے بالغ ہونے پر اس کی مرضی سے اس سے نکاح کرے تو شریعت میں یہ بات ناپسندیدہ نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔ بہرحال ہم نے اس قول کو صرف ایک ہی وجہ کی بنا پر نہیں بلکہ متعدد وجوہ کی بنا پر چھوڑا ہے اور نساء کے لفظ کی جو تخصیص کی ہے وہ ان قرائن کی بنا پر ہے جن میں سے بعض اوپر مذکور ہوئے اور بعض آگے آ رہے ہیں۔ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ سے مراد لونڈیاں ہیں۔ چونکہ ان کے معاملے میں عدل وغیرہ کی شرط نہیں ہے اس وجہ سے ان کی اجازت دی۔ اس مسئلے کی صحیح نوعیت پر ہم بقرہ میں لکھ چکے ہیں۔ آگے موزوں مقام پر اس پر مزید بحث کریں گے۔
Top