Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 54
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا
اَمْ : یا يَحْسُدُوْنَ : وہ حسد کرتے ہیں النَّاسَ : لوگ عَلٰي : پر مَآ اٰتٰىھُمُ : جو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَقَدْ اٰتَيْنَآ : سو ہم نے دیا اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : آل ابراہیم الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاٰتَيْنٰھُمْ : اور انہیں دیا مُّلْكًا : ملک عَظِيْمًا : بڑا
کیا یہ لوگوں پر حسد کر رہے ہیں، اس فضل پر جو اللہ نے ان کو بخشا ؟ تو ہم نے تو بخش دی آلِ ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ہم نے ان کو ایک عظیم سلطنت بھی بخشی
اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰي مَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ یہود بنی اسماعیل کے حاسد تھے : اس آیت میں اصل راز سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ یہ سارا طوفان اس حسد کا نتیجہ ہے جو یہ مسلمانوں سے رکھتے ہیں۔ ان کو یہ غم و غصہ ہے کہ نبوت تو ان کے خاندان کا حصہ تھی، یہ ان کے خاندان سے سے نکل کر بنی اسماعیل کے اندر کس طرح چلی گئی ؟ انہیں یہ خبر نہیں ہے کہ نبوت اور شریعت اللہ کا فضل ہے، اللہ جس کو چاہے اپنا فضل بخشے۔ اللہ کے بخشے ہوئے فضل پر حسد کرنا اور اس حسد کے بحران میں مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہونا خود اللہ سے لڑنے کے مرادف ہے۔ اگر یہ اللہ سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو لڑیں، ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب و حکمت بھی بخش دی اور ان کو ایک عظیم سلطنت بھی بخش دی۔ یعنی جو کچھ انہیں کرنا ہے کرلیں، ہم نے تو جو کچھ کرنا تھا کردیا۔ فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَيْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا۔ زبان کا ایک اسلوب : شرطیہ اور انشائیہ جملوں میں جب اس طرح فقد آتا ہے تو اس سے پہلے کلام میں کچھ حذف ہوتا ہے جس کی تفصیل بعد کے جملہ سے ہوتی ہے۔ یہاں مدعا یہ ہے کہ اگر بنی اسماعیل پر حسد کی وجہ سے یہ لوگ اس نبی کی مخالفت کر رہے ہیں تو جتنا حسد کرنا ہے کرلیں، ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کتاب و حکمت بھی بخش دی اور ایک عظیم بادشاہی بھی۔ آل ابراہیم سے مراد بنی اسماعیل ہیں : آلِ ابراہیم اگرچہ عام ہے لیکن یہاں مراد بنی اسماعیل ہیں۔ قرینہ اس پر دلیل ہے۔ اس لیے کہ یہ بات بنی اسرائیل کو بطور سرزنش کہی جا رہی ہے۔ اس وجہ سے وہ اس میں شامل نہیں ہوسکتے اور جب وہ شامل نہیں ہوسکتے تو اس کے واحد مصداق صرف بنی اسماعیل رہ جاتے ہیں۔ پھر یہاں کتاب و حکمت اور خلافت کے عطا کیے جانے کا ذکر ہے اور یہ عطا کیا جانا بنی اسرائیل پر لعنت کے بعد ہے اس وجہ سے ان کے اس میں شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں تورات سے خود ثابت ہے کہ یہود نے اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کے بجائے ہمیشہ حضرت اسحاق ہی سے منسوب کیا۔ تورات میں ہے کہ ابراہیم کی اولاد اسحاق کے نام سے پکاری جائے گی۔ اس کے برعکس اہل عرب اپنے آپ کو ہمیشہ حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے رہے، اس لیے کہ حضرت ابراہیم نے وہیں قیام کیا، وہیں بیت اللہ کی تعمیر فرمائی اور وہیں اپنے تمام مناسک بھی ادا کیے۔ اس اسلوب بیان سے ایک تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل یہ نہ خیال کریں کہ آل ابراہیم ہونے کا شرف انہی کو حاصل ہے۔ یہ شرف بنی اسماعیل کو بھی حاصل ہے۔ دوسری یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو اس نے حضرت ابراہیم سے فرمایا تھا اور جو صریحاً حضرت اسماعیل، اور ان کی اولاد ہی سے متعلق تھا۔ تورات میں یہ وعدہ یوں مذکور ہے۔ ”اور خداوند کے فرشتے نے آسمان سے دوبارہ ابراہام کو پکارا اور کہا کہ خداوند فرماتا ہے کہ چونکہ تو نے یہ کام کیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے دریغ نہ رکھا اس لیے میں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے ھڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کے مانند کردوں گا اور تیری اولاد دشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کہ تو نے میری بات مانی“ (کتاب پیدائش باب 22)۔ تورات کے اس بیان سے صاف واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ برکت حضرت ابراہیم سے اس وقت فرمایا ہے جب انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے۔ حضرت اسماعیل۔ کی قربانی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس وجہ سے لازماً یہ وعدہ حضرت اسماعیل اور انہی کی نسل سے متعلق ہوسکتا ہے۔ بنی اسماعیل کے لیے اللہ تعالیٰ کے تین وعدے : اس وعدے میں تین باتوں کا ذکر ہے۔ ایک یہ اللہ تعالیٰ ان کو ایک عظیم امت بنائے گا۔ دوسری یہ کہ ان کو عظیم فتوحات حاصل ہوں گی اور دشمنوں کے پھاٹکوں پر ان کا قبضہ ہوگا۔ تیسری یہ کہ اس نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔ یہ تینوں وعدے آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پورے ہوئے۔ آپ کی بعثت سے ایک عظیم امت ظہور میں آئی، یہ امت دشمنوں کے پھاٹکوں کی مالک بنی، اور آپ کی دعوت سے تمام عالم انسانی کو دین و شریعت کی برکت نصیب ہوئی۔ وعدے کا ذکر بشکل واقعہ : اسی وعدے کا عملی ظہور ہے جس کی طرف آیت زیر بحث میں اشارہ ہے۔ اگرچہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ہے اس وقت تک یہ وعدہ مکمل طور پر ظاہر نہیں ہوا تھا لیکن اس کے پورے ہونے کے لیے فیصلہ الٰہی صادر ہوچکا تھا اس وجہ سے اس کو تعبیر اس طرح فرمایا ہے کہ گویا یہ عملاً پورا ہوچکا ہے۔ اس اسلوب بیان کی قرآن مجید میں متعدد مثالیں ہیں ہم ایک مثال یہاں پیش کرتے ہیں ”وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ (20) يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ (21): اور یاد کرو جب کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو، اپنے اوپر اللہ کے فضل کو یاد کرو کہ اس نے تم میں انبیا اٹھائے، تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ بخشا جو دنیا والوں میں سے کسی کو نہیں بخشا۔ اے میری قوم کے لوگو، اس ارض مقدس میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور پیچھے نہ پلٹو کہ نامراد ہوجاؤ“ (مائدہ :20-21)۔ حضرت موسیٰ ؑ نے یہ تقریر قوم کے سامنے اس وقت فرمائی ہے جب وہ اس کو ارض مقدس پر حملہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تک ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ظہور میں نہیں آئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان باتوں کا فیصلہ ہوچکا تھا اور اس نے حضرت موسیٰ کو اس فیصلے سے آگاہ بھی فرما دیا تھا اس وجہ سے حضرت موسیٰ نے ان کا ذکر اس طرح فرمایا ہے گویا یہ وعدے پورے ہوچکے ہیں۔ حکومت کتاب و حکمت کے ثمرات میں سے ہے : اس آیت سے ایک لطیف نکتہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سلطنت و خلافت کتاب و حکمت کے ثمرات و نتائج میں سے ہے جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو کتاب و حکمت کی نعمت عطا فرماتا ہے اور وہ قوم سچی شکر گزاری کے ساتھ اس کو قبول بھی کرلیتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کو امات و خلافت کا منصب بھی سونپ دیا گیا۔ یہ مضمون بیان تو قرآن مجید میں کئی جگہ ہوا ہے لیکن یہاں خاص اہتمام سے بیان ہوا ہے۔ جو لوگ عربی زبان کا ذوق رکھتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں اٰتینا کے فعل کے اعادے میں بڑی بلاغت ہے۔ یہود کا سارا حسد تو اسی وجہ سے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ اس قرآن کے ساتھ اس زمین کی بادشاہی بھی بندھی ہوئی ہے چناچہ ان کے اسی حسد پر کاری ضرب لگانے کے لیے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف کتاب و حکمت ان کو دی بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک عظیم سلطنت بھی ان کو دی۔ تمہارے حسد کے علی الرغم !
Top