Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 63
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ۗ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا
اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَعْلَمُ اللّٰهُ : اللہ جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں فَاَعْرِضْ : تو آپ تغافل کریں عَنْھُمْ : ان سے وَعِظْھُمْ : اور ان کو نصیحت کریں وَقُلْ : اور کہیں لَّھُمْ : ان سے فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے حق میں قَوْلًۢا بَلِيْغًا : اثر کرجانے والی بات
ان لوگوں کے دلوں کے اندر جو کچھ ہے اللہ اس سے خوب واقف ہے تو ان سے اعراض کرو، ان کو سمجھاؤ اور ان سے خود ان کے باب میں دل میں دھنسنے والی بات کہو
منافقین کے دل کا اصلی راز : فرمایا کہ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے۔ یہ امت کی خیر خواہی اور ساز گاری پیدا کرنے کا جذبہ ہے جو ان سے یہ پاپڑ بلوا رہا ہے یا منافقت اور طاغوت پرستی کا فساد ہے جو انہیں اسلام کی طرف ابھی یکسو ہونے نہیں دے رہا ہے اور یہ دل میں اس امید کی پرورش کر رہے ہیں کہ شاید اس کشمکش کا نتیجہ یہود اور کفار کی فتحمندی کی شکل میں نکلے تو ان کی یہ منافقت کی پالیسی کامیاب رہے گی۔ فرمایا کہ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا۔ ان کی اس حرکت سے اعراض کرو، ان کو نیک و بد اچھی طرح سمجھا دو ، اور ان کے حق میں جو کچھ بہتر ہے اس سے ایسے انداز میں ان کو آگاہ کردو کہ ان کے کان کھلیں اور بات دلوں میں اترے ہیں۔ فکیف اذا اصابتہم مصیبۃ الایہ میں جو دھمکی ہے وہ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِيْغًا میں اور زیادہ تیز و تند ہوگئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اپنی اس منافقت کے لیے جو بہانہ سازی کر رہے ہیں خدا اس کی حقیقت سے خوب واقف ہے، اس وجہ سے تم معاملہ خدا کے حوالہ کرو اور ابھی ان سے اعراض کرو، البتہ ان کو نیک و بد اچھی طرح سمجھا دو کہ جو کھیل یہ کھیل رہے ہیں یہ خود ان کے لیے مستقبل میں نہایت خطرناک ثابت ہوگا۔ وعظ کے لفظ کے متلعق ہم کہیں یہ لکھ آئے ہیں کہ عربی میں یہ لفظ زجر اور تنبیہ کے مفہوم کا بھی حامل ہے۔ ’ قَوْلًا بَلِيْغًا ‘ کی بلاغت : قُلْ لَّھُمْ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيْغًا میں فی انفسہم کے الفاظ اس حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ ان پر یہ حقیقت واضح کردی جائے کہ یہ نصیحت خود ان کے حق میں بہتر ہے، ان کی اس روش سے اسلام کو کوئی ضرر پہنچنے والا نہیں ہے، اللہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے کافی کافی ہے۔ البتہ یہ خود اپنے آپ کو تباہ کرلیں گے۔ قولا بلیغا کے الفاظ اس حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ اب نصیحت کا انداز کان کھولنے وال اور دل میں دھنسنے ولاا ہونا چاہیے۔ یہ بہرے اور بلید لوگ ہیں اس وجہ سے کریمانہ اندازِ نصیحت ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ نبی ﷺ کو یہ ہدایت اس وجہ سے ہوئی کہ آپ اگر کسی کی غلطی پر کوئی گرفت فرماتے تو کمال درجہ رافت و شفقت کی وجہ سے نہایت ہی نرم اور کریمانہ انداز میں اس کی طرف اشارہ فرماتے۔ اگرچہ حضور کے شایان شان انداز یہی تھا اور ذی صلاحیت لوگوں کے لیے یہ اشارہ بھی کافی ہوجاتا تھا لیکن منافقین اس کریم النفسی کے نہ اہل تھے نہ قدر دان، بلکہ وہ اس سے غلط فائدہ اٹھاتے اور روز بروز اپنی شرارتوں میں دلیر ہوتے جا رہے تھے۔ اس وجہ سے یہ ہدایت ہوئی کہ اب ان کے ساتھ زیادہ نرمی برتنے کا موقع نہیں ہے بلکہ وقت آگیا ہے کہ ان کو واضح الفاظ میں تنبیہ کی جائے اور ان کے نیک و بد سے ان کو اچھی طرح آگاہ کردیا جائے تاکہ یہ سنبھلنا چاہیں تو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے پہلے سنبھل جائیں۔
Top