Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 66
وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًاۙ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّا كَتَبْنَا : ہم لکھ دیتے (حکم کرتے) عَلَيْهِمْ : ان پر اَنِ : کہ اقْتُلُوْٓا : قتل کرو تم اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ اَوِ اخْرُجُوْا : یا نکل جاؤ مِنْ : سے دِيَارِكُمْ : اپنے گھر مَّا فَعَلُوْهُ : وہ یہ نہ کرتے اِلَّا : سوائے قَلِيْلٌ : چند ایک مِّنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ فَعَلُوْا : کرتے مَا : جو يُوْعَظُوْنَ : نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : اس کی لَكَانَ : البتہ ہوتا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے وَاَشَدَّ : اور زیادہ تَثْبِيْتًا : ثابت رکھنے والا
اور اگر ہم ان پر یہ فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں کو چھوڑو تو ان میں سے بس تھوڑے ہی اس کی تعمیل کرتے اور اگر یہ لوگ وہ کرتے جس کی ہدایت کی جاتی تو ان کے لیے یہ بات بہتر اور ایمان پر قدم جمانے والی ہوتی
تفسیر آیت 66۔ 70: وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ فَعَلُوْا مَا يُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِيْتًا۔ منافقین کی بنیادی کمزوری : اب یہ ان منافقین کے اصل سبب نفاق سے پردہ اٹھایا ہے کہ یہ بننے کو تو اسلام کے مدعی بن بیٹھے ہیں لیکن ابھی یہ جاہلیت کے سابق روابط و تعلقات کے پھندوں سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے ہیں ابھی تک خاندان، برادری، قبیلہ اور قوم کی زنجیریں بھی ان کے پاؤں میں ہیں اور وطن اور سرزمین کی وابستگیاں بھی دامن گیر ہیں اس وجہ سے یہ آگے بڑھنے کی بجائے بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہے ہیں حالانکہ اسلام کا اول مطالبہ یہی ہے کہ آدمی ہر زنجیر کو توڑ کر صرف اللہ کے لیے اٹھ کھڑا ہو جس طرح مہاجرین اولین اٹھ کھڑے ہوئے۔ حق کی دوستی کا اصل تقاضا : یہ ملحوظ رہے کہ یہ منافقین زیادہ تر یہود اور اطراف مدینہ کے قبایل سے تعلق رکھتے والے لوگ تھے۔ یہ اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر اسلاب کے اظہار پر تو مجبور ہوگئے تھے لیکن، جیسا کہ اوپر گزرا۔ یہ اپنے روابط یہود اور اپنے قبائل سرداروں کے ساتھ بھی رکھنا چاہتے تھے اور اسی غرض کے لیے اپنے معاملات و مقدمات میں بھی ان سے رجوع کرتے تھے۔ قرآن نے یہ ان کی اسی کمزور سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کو اپنوں سے لڑنے اور اپنے گھربار چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ آ ملنے کا حکم دیا جائے تو اس جہاد اور ہجرت کے لیے ان میں سے بہت تھوڑے آمادہ ہوں گے۔ " اقتلوا انفسکم " کے مفہوم پر ہم بقرہ آیت 54 اور نساء آیت 69 کے تحت جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ جہاد اول تو اپنی فطرت ہی سے ایک سخت آزمائش ہے لیکن جب یہ تلوار ان کے خلاف اٹھانی پڑے جن سے خون اور قرابت کے رشتے ہوں اور جن کی حمیت و حمایت کا جذبہ رگ و ریشہ میں سرایت کیے ہوئے ہو تو یہ آزماشئ سخت تر ہوجاتی ہے اس لیے کہ اس صورت میں تلوار گویا اپنی ہی گردنوں پر چلانی پڑتی ہے۔ لیکن اسلام حق کے مقابل میں خون اور نسب کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اس وجہ سے خدا کی وفاداری کا امتحان پاس کرنے کے لیے اہل ایمان کو اس مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ چناچہ اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ بدر کے موقع پر ماموں کی تلوار بھانجے کے اور بھتیجے کی تلوار چچا کے مقابل میں بےنیام ہوئی اور عصبیتِ جاہلیت کے تمام روابط حق کے اگے بالکل بےحقیقت ہو کے رہ گئے۔ اسلام کی اسی حقیقت کی طرف یہاں ان منافقین کو بھی توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اگر یہ بھی اپنے خاندان و قبیلہ اور گھر در کی وابستگیوں سے آزاد اور یکسو ہو کر کلیۃً مسلمانوں کے معاشرے میں شامل ہوجائیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اسلام پر ان کے قدم جمانے میں یہ چیز نہایت کارگر ہوگی۔ فاسد ماحول سے نکل کر جب یہ پاکیزہ ماحول میں پہنچ جائیں گے تو ان کی کمزوریاں دور ہوں گی اور یہ بھی اسلام کے جاں نثاروں کے ساتھ مل کر خدا کے وفادار اور حق کے خدمت گزار بن جائیں گے۔ ہجرت اور جہاد کی برکات : اس کے بعد ان کی حوصلہ افزائی کے لیے فرمایا کہ یہ نہ خیال کریں کہ یہ کوئی تباہی و خودکشی کا راستہ ہے۔ اگر وہ اللہ کے لیے اپنے گھر در چھوڑ دیں گے تو اللہ ان کو خاص اپنے پاس سے اجر عظیم دے گا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب کرے گا۔ جو لوگ سب سے کٹ کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ان کو اللہ کے انعام یافتہ بندوں۔ انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کی معیت ورفاقت حاصل ہوتی ہے اور کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو اس پاک گروہ کی معیت ورفاقت حاصل ہو ! یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ اس فضل خاص کے مستحق بندوں سے بیخبر نہیں ہے۔ جو لوگ اس فضل کے حاصل کرنے کے لیے ہجرت اور جہاد کی بازیاں کھیلیں گے وہ مطمئن رہیں کہ اللہ ان کی جاں بازیوں سے اچھی طرح باخبر ہے۔
Top