Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 84
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْكِیْلًا
فَقَاتِلْ : پس لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ لَا تُكَلَّفُ : مکلف نہیں اِلَّا : مگر نَفْسَكَ : اپنی ذات وَحَرِّضِ : اور آمادہ کریں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّكُفَّ : روک دے بَاْسَ : جنگ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ اَشَدُّ : سخت ترین بَاْسًا : جنگ وَّاَشَدُّ : سب سے سخت تَنْكِيْلًا : سزا دینا
پس اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔ تم پر اپنی جان کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے اور مومنوں کو اس کے لیے ابھارو۔ توقع ہے کہ اللہ کافروں کے دباؤ کو روک دے اور اللہ بڑے زور والا اور عبرت انگیز سزا دینے والا ہے۔
84۔ 85: فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِيْلًا۔ مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَّكُنْ لَّهٗ نَصِيْبٌ مِّنْھَا ۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْھَا ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيْتًا۔ " شفع " کے معنی ہم سورة بقرہ کی تفسیر میں واضح کرچکے ہیں کہ ایک چیز کو دوسری چیز کے سداتھ جوڑنے کے ہیں۔ اسی مفہوم سے ترقی کر کے کسی بات کی تائید و حمایت یا اس کے حق میں سفارش کرنے کے معنی میں یہ استعمال ہوا۔ یہاں شفاعت حسنہ اور شفاعت سیئہ دو قسم کی شفاعتوں کا ذکر ہے۔ شفاعت حسنہ تو ظاہر ہے کہ یہ ہوگی کہ کسی مقصد حق کو اس سے تائید وتقویت حاصل ہو۔ اس کے برعکس شفاعت سیئہ یہ ہے کہ اس سے تقویت و تائید کے بجائے اس مقصد کو نقصان پہنچے۔ منافقین، قرآن کی دعوت جہاد کے لیے لوگوں کو ابھارنے کے بجائے، جیسا کہ اوپر اشارہ ہوا اور آگے تفصیل آرہی ہے۔ لوگوں کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کر رہے تھے اس وجہ سے قرآن نے ان کی اس کوشش کو شفاعت سیئہ سے تعبیر کیا۔ مقیت کے معنی شہید و حفیظ اور مقتدر کے ہیں۔ یاد ہوگا، اس مجموعہ آیات کا آغاز اس مضمون سے ہوا تھا کہ پہلے تو منافقین بہت بڑھ بڑھ کر جنگ و جہاد کی باتیں بناتے تھے لیکن اب جب کہ جنگ کا حکم دے دیا گیا ہے تو چھپتے پھرتے ہیں اور دوسروں کا حوصلہ بھی پست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے بعد اسی سلسلہ کی دوسری باتیں زیر بحث آگئی تھیں۔ اب یہ پیغمبر ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ پر ذمہ داری صرف اپنے نفس کی ہے، آپ خود جنگ کے لیے اٹھیے اور مسلمانوں کو اٹھنے کے لیے ابھاریے، جس کو توفیق ہوگی وہ اٹھے گا، جو نہیں اٹھے گا اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔ اللہ کے کام دوسروں پر منحصر نہیں ہوتے، وہ خود بڑی قوت رکھنے والا ہے اور مخالفوں کو عبرت انگیز سزا دینے والا ہے۔ وہ آپ کے اور آپ کے مخلص ساتھیوں ہی کے اندر اتنی قوت پیدا کردے گا کہ اسی سے کفار کا زور ٹوٹ جائے گا۔ حق کی حمایت میں زبان سے کچھ کہنا بھی موجب اجر ہے : اس کے بعد فرمایا کہ منافقین جو ریشہ دوانیاں اور افواہ بازیاں مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنے اور جہاد سے روکنے کے لیے کر رہے ہیں اس کی پروا نہ کیجیے۔ جو آج حق کی تائید و حمایت میں اپنی زبان کھولیں گے وہ اس کا اجر پائیں گے اور جو اس کے خلاف کہیں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے، خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔
Top