Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو یا اسی کو لوٹا دو۔ اللہ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے
آگے کا مضمون۔ آیات 86 تا 100: آیت 81 میں نبی ﷺ کو منافقین سے اعراض کا جو حکم دیا گیا تھا اس کا اثر قدرتی طور پر جاں نثار صحابہ پر یہ پڑ سکتا تھا کہ جن کے باب میں ان کو شبہ بھی ہوجاتا کہ ان کا تعلق منافقین سے ہے۔ ان سے وہ ربط ضبط اور سلام و کلام ختم کردیتے اور اس طرح ایک معاشرتی بائیکاٹ کی شکل پیدا ہوجاتی جو ابھی اس مرحلے میں مطلوب نہیں تھی۔ اس وجہ سے ضروری ہوا کہ اس موقع پر مسلمانوں کو ایسی ہدایات دی جائیں جو ان کو اعتدال پر قائم رکھیں۔ وہ منافقین سے ہوشیار تو رہیں لیکن ان سے سلام و کلام بند نہ کریں۔ ابھی ان کو اصلاح حال کا اور موقع دیں۔ چناچہ سب سے پہلے مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ جو تمہیں سلام کرے اس کو اس کے سلام کا اس سے بہتر جواب دو یا کم از کم یہ اس کے سلام کو لوٹا دو۔ پھر ان لوگوں کو خطاب کر کے جو دار الحرب کے منافقین کے لیے اپنے دل میں بڑا نرم گوشہ رکھتے تھے، اور ان کی منافی اسلام حرکات کے واضح ہونے کے باوجود یہ توقع رکھتے تھے کہ ان کے ساتھ روابط قائم رکھے جائیں گے تو یہ بالآخر اچھے مسلمان بن جائیں گے، فرمایا کہ یہ لوگ تو مسلمان بننے سے رہے البتہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم ان کے ساتھ بندھے رہے تو یہ تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔ پھر ان کے مخلص سمجھے جانے کے لیے یہ کسوٹی قرار دی کہ یہ اپنے ماحول سے ہجرت کر کے تمہارے ساتھ آ ملیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر ان سے تعلق رکھنے کے بجائے ان کو دشمن اور دشمنوں کا ساتھی سمجھو، ان کے ساتھ جنگ کرو۔ اس حکم عام سے صرف ان مسلمانوں کو مستثنی کیا جن کا تعلق ایسے غیر مسلم قبائل سے ہو جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہو یا معاہدہ تو نہ ہو لیکن ان قبائل کے مسلمان فی الحال اپنی غیرجانبداری باقی رکھنا چاہتے ہوں، نہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے تیار ہوں، نہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر اپنی قوم سے لڑنے کی جراءت کر رہے ہوں۔ فرمایا کہ اگر یہ اپنی غیرجانبداری باقی رکھیں، تم سے تعرض نہ کریں، تمہارے ساتھ ان کے تعلقات مصالحانہ رہیں تو تم بھی ان کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام نہ کرو۔ اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی فرمادی کہ ضروری ہے کہ یہ غیر جانبداری واقعی اور حقیقی ہو۔ بعض جماعتیں ایسی ہیں جو بظاہر تو غیرجانبداری کی مدعی ہیں لیکن جب ان پر کفار کا دباؤ پڑجاتا ہے تو یہ اسلام دشمنی کے لیے آمادہ ہوجاتی ہیں۔ ان کے بابت فرمایا کہ ان کے ساتھ دشمنوں ہی کا سا معاملہ کرو، اگر یہ تمہارے خلاف جارحانہ اقدام سے باز نہ آئیں تو تم بھی ان کو قتل کرو۔ اس کے بعد دارالحرب میں خطاً یا عمداً قتل ہوجانے والے مسلمانوں کی دیت کا حکم دبیان فرمایا اور نہایت سخت الفاظ میں وعید فرمائی کہ جو شخص عمداً کسی مسلمان کو قتل کردے گا اس کے لیے دائمی عذاب جہنم اور اس پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ تم کفار کے جس علاقے پر حملہ کرو اس کے اندر کے مسلمانوں کے بارے میں پہلے اچھی طرح تحقیق کرلو تاکہ مسلمان تمہاری تلوار سے محفوظ رہیں اور اگر کوئی شخص اپنے ایمان کے اظہار کے لیے تمہیں سلام کرے تو تم محض طمع مال میں اس کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار نہ کرو۔ اس کے بعد تمام غیر معذور مسلمانوں کو جان و مال دونوں کے ساتھ خدا کی راہ میں جہاد پر اور تمام غیر معذور مسلمانوں کو دارالحرب اور دارالکفر سے ہجرت پر ابھارا ہے اور ان کے مراتب و مدارج بیان فرمائے ہیں۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔ 86۔ 87۔ وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا۔ اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۭ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا۔ " حیاہ تحیۃ " کے اصل معنی کسی کو زندگی کی دعا دینے کے ہیں۔ اسی سے دعائیہ کلمہ حیاک اللہ، ہے جس کے معنی ہیں، اللہ تمہاری عمر دراز کرے۔ سلام اور اس کے ہم معنی دوسرے دعائیہ کلمات بھی چونکہ کم و بیش یہی یا اسی سے ملتے جلتے مفہوم اپنے اندر رکھتے ہیں اس وجہ سے لفظ کے عام مفہوم میں وہ سب اس کے اندر شامل ہوجاتے ہیں۔ اسلامی معاشرہ میں سلام کی اہمیت : ہر معاشرے میں کچھ ایسے دعائیہ کلمات مروج ہوتے ہیں جو معاشرے کے افراد آپس میں ملتے جلتے وقت ابتدائی تعارف، اظہارِ محبت و اعتماد، نشانِ اخوت و مودت اور علامتِ وحدت فکر و عقیدہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں معاشرتی اتصال و ارتباط کے نقطۂ نظر سے ان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ معاشرے کے افراد، خواہ ان کے اندر کتنی ہی دوری و بےگانگی ہو، آمنے سامنے ہوتے ہی ان کے واسطے سے اس طرح باہم ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں گویا ان کے اندر کوئی اجنبیت و بیگانگی تھی ہی نہیں۔ عربوں میں اس مقصد کے لیے بہت سے الفاظ اور فقرے معروف تھے۔ مثلا حیاک اللہ، اہلاً و سہلاً و مرحبا وغیر۔ سلام کا لفظ بھی معروف تھا۔ جب اسلامی معاشرہ ظہور میں آیا تو بجز ان کلمات کے جن میں شرک کی کوئی آلائش تھی، باقی تمام پاکیزہ کلمات باقی رہے البتہ السلام علیکم کو ایک خاص اسلامی شعار کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ یہ کلمہ گویا مومن و کافر کے درمیان ایک علامتِ فارقہ بن گیا۔ جب ایک شخص نے دوسرے کے سامنے السلام علیکم کہہ دیا اور اس نے وعلیکم السلام سے اس کا جواب دے دیا تو گویا من و تو کا فرق اٹھ گیا اور دونوں دو قالب و یک جان ہوگئے اور جواب نہ دیا تو اس کے معنی صرف یہی نہیں ہوتے تھے کہ اس نے اس کا سلام قبول نہیں کیا بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہوتے تھے کہ اس نے اس کے اسلام کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ کلمہ تحیت کی اس اہمیت کی وجہ سے اس موقع پر جب کہ نبی ﷺ کو، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، منافقین سے اعراض کی ہدایت ہوئی تو ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ تنبیہ بھی کردی گئی کہ جب کوئی شخص تمہیں سلام و تحیت سے مخاطب کرے تو اس کا اسلامی و معاشرتی حق یہ ہے کہ اس کے سلام و تحیت کا اس کو جواب دو ، اس کا اعلی طریقہ تو یہ ہے کہ اس سے بہتر طریقہ پر جواب دو ، اگر یہ نہیں تو کم از کم اسی کے الفاظ اس کی طرف لوٹا دو۔ اس تنبیہ کی ضرورت اس لیے تھی کہ زیادہ پرجوش لوگوں کی طرف سے اس مرحلے میں منافقین کے ساتھ معاشرتی بائیکاٹ کی نوبت نہ آنے پائے۔ خاص طور پر اس کا یہ پہلو بہت نازک تھا کہ بعض حالات میں اس کی زد میں وہ لوگ بھی آسکتے تھے جو فی الحقیقت تو منافق نہ ہوتے لیکن زیادہ حساس لوگوں کو کسی سبب سے ان پر منافقت کا شبہ ہوجاتا۔ یہ پیچیدگی تو ان منافقین کے معاملے میں تھی جو دارالاسلام میں تھے۔ ان سے زیادہ پیچیدہ معاملہ ان مسلمانوں کا تھا جو دار الحرب میں تھے۔ ان مسلمانوں کے اندر بھی، جیسا کہ آگے آرہا ہے، منافق اور مخلص دونوں ہی قسم کے تھے۔ قرآن نے اگرچہ ان کے درمیان امتیاز کے لیے نہایت واضح کسوٹیاں مقرر کردیں تاہم اس کا اندیشہ باقی رہتا تھا کہ کوئی مخلص مسلمان مسلمانوں کی تلوار کی زد میں آجائے، اس لیے مسلمانوں کو اگے آیت 94 میں یہ ہدایت کی گئی کہ جس علاقے پر حملہ کرو اس کے مسلمانوں کے متعلق اچھی طرح معلومات حاصل کرلو، اگر کوئی تمہیں سلام کرے اور اس طرح تمہارے ساتھ اپنی دینی اخوت و مودت کا اظہار کرے تو بےتحقیق کیے اس کے مسلمان ہونے سے انکار نہ کرو۔ الغرض یہ سلام اور جواب سلام کا معاملہ کوئی رسمی حیثیت نہیں رکھتا تھا بلکہ اسلامی معاشرہ میں یہ وصل و فصل کی بنیاد تھا اس وجہ سے قرآن نے اہمیت کے ساتھ اس کو بیان فرمایا اور تنبیہ فرمائی کہ خدا ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال و اقوال کی جواب دہی کرنی ہے۔ لیجمعنکم کے بعد، الی کا صلہ، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں اس اسلوب کی وضاحت کرچکے ہیں، اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں کوئی لفظ ہانکنے، دھکیلنے اور لے جانے کے معنی میں محذوف ہے۔
Top