Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 97
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِیْمَ كُنْتُمْ١ؕ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِیْهَا١ؕ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو تَوَفّٰىھُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے ظَالِمِيْٓ : ظلم کرتے تھے اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں فِيْمَ : کس (حال) میں كُنْتُمْ : تم تھے قَالُوْا كُنَّا : وہ کہتے ہیں ہم تھے مُسْتَضْعَفِيْنَ : بےبس فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (ملک) قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَلَمْ تَكُنْ : کیا نہ تھی اَرْضُ : زمین اللّٰهِ : اللہ وَاسِعَةً : وسیع فَتُھَاجِرُوْا : پس تم ہجرت کر جاتے فِيْھَا : اس میں فَاُولٰٓئِكَ : سو یہ لوگ مَاْوٰىھُمْ : ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَسَآءَتْ : اور برا ہے مَصِيْرًا : پہنچے کی جگہ
جن لوگوں کی جان فرشتے اس حال میں قبض کریں گے کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے ہوئے ہیں وہ ان سے پوچھیں گے کہ تم کس حال میں پڑے رہے۔ وہ جواب دیں گے ہم تو اس ملک میں بالکل بےبس تھے۔ وہ کہیں گے کہ خدا کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے
97 تا 100:۔ اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ ۭقَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۭقَالُوْٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا ۭفَاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ ۭوَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۔ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ میں لفظ مَلٰىِٕكَةُ اسی طرح جمع آیا ہے جس طرح آل عمران کی آیات 39، 42 اور 45 میں آیا ہے۔ وہاں فنادتہ الملئکۃ کے تحت ہم اس کے جمع لانے کی وجہ بیان کرچکے ہیں۔ بعض مرتبہ جمع سے مقصود صرف جنس کا اظہار ہوتا ہے۔ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حال ہے۔ اپنی جانوں پر ظلم سے مقصود یہاں ہجرت کی استطاعت کے باوجود دارالکفر میں پڑے رہنا اور اس طرح اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ فِيْمَ كُنْتُمْ (تم کہاں پڑے رہے) یہ سوال زجر و توبیخ کی نوعیت کا ہے۔ مستضعف کے معنی ہیں بےبس، مجبور، دبا ہوا، زیردست۔ مراغم کے معنی ایسی جگہ کے ہیں جہاں انسان نکل کے جا سکے تمام غیر معذور مسلمانوں کو ہجرت کا حکم : ان تمام غیر معذور مسلمانوں کو جو اب تک دارالحرب میں پڑے ہوئے تھے، ہجرت پر ابھارا ہے اور یہ گویا ان کے لیے آخری تنبیہ ہے۔ اس کی تمہید اس طرح اٹھائی ہے کہ جو لوگ اسلام کا دعوی کرنے کے باوجود بلا کسی شدید مجبوری و عذر شرعی کے اب تک دارالکفر میں پڑے ہوئے ہیں، اسی حالت میں ان کی موت آئی تو فرشتے ان سے سوال کریں گے کہ یہ تم کس حال میں پڑے رہے ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہم تو بےبس و مجبور تھے۔ فرشتے جواب دیں گے، کیا خدا کی زمین تمہارے لیے کہیں سمائی نہیں تھی کہ تم وہاں ہجرت کرجاتے۔ پھر فرمایا کہ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ نہایت برا ٹھکانہ ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو حقیقۃً بےبس اور معذور ہیں۔ فرمایا : اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّلَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا۔ خدا کے ہاں معذور صرف وہ مرد عورتیں اور بچے قرار پائیں گے جو نہ تو کوئی تدبیر کرسکنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی راہ کھل رہی ہے، یہ لوگ امید ہے کہ اللہ ان سے درگزر فرمائے گا۔ اس کے بعد ہجرت کی راہ میں کمر ہمت باندھ کر اٹھ کھڑے ہونے والی کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ : وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَةً ۭ وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِهٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا، جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لیے اٹھ کھڑآ ہوگا وہ خدا کی زمین میں بہت ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا آخر میں یہ اطمینان بھی دلا دیا کہ ہجرت کے اجر عظیم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آدمی دارالہجرت میں پہنچ ہی جائے بلکہ صرف یہ کافی ہے کہ اللہ و رسول کی طرف ہجرت کے ارادے سے آدمی گھر سے نکل کھڑا ہو۔ جو گھر سے نکل کھڑا ہوا اگر فوراً ہی اس کی موت آگئی یا وہ قتل کردیا گیا تو اس سے اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اللہ کے اوپر اس کا اجر لازم ہوگیا۔ ہجرت سے متعلق بعض حقائق : ان آیات سے ہجرت کے متعلق مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں۔ اک یہ کہ ہر نقل مکانی ہجرت نہیں ہے۔ ہجرت یہ ہے کہ مسلمان ایک ایسے مقام کو جہاں اس کے لیے اپنے دین و ایمان پر قائم رہنا جان جوکھوں کا کام بن گیا ہو، چھوڑ کر ایک ایسے مقام کو منتقل ہوجائے جہاں اسے توقع ہو کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرسکے گا۔ دوسرا یہ کہ اگر دارالاسلام موجود ہو، اس کی طرف ہجرت کی راہ باز ہو، کوئی سخت مجبوری بھی نہ ہو تو ایسے مقام سے ہجرت کرکے درالاسلام میں منتقل ہوجانا واجب ہے ورنہ ایسے شخص کا ایمان معتبر نہیں۔ تیسرا یہ کہ ہجرت کے معاملے میں ہر عذر، عذر نہیں ہے، معتبر عذر یہ ہے کہ ادمی تنا بےبس ہو کہ اس سے خود کوئی تدبیر بن آرہی ہو نہ اس کے لیے کوئی راہ کھل رہی ہو۔ ایسی مجبوری میں بھی اس پر اپنے ایمان کی حفاظت بہرحال لازم ہے۔ اگرچہ اس کو اصحاب کہف کی طرح کسی غار ہی میں پناہ لینی پڑجائے۔ چوتھا یہ کہ ہجرت کا اجر آخرت میں تو جو ہے، وہ ہے، دنیا میں بھی مہاجر کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص بدرقہ فراہم ہوتا ہے۔ خدا کی زمین اس کے لیے راہیں کھولتی ہے اور غیب سے اس کے لیے اسباب و سامان فراہم ہوتے ہیں۔ پانچویں یہ کہ اس راہ میں پہلا قدم بھی منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیت خالص اور ارادہ راسخ ہو تو گھر سے نکلتے ہی مہاجر کو موت آجائے تو ہجرت کا اجر اس کے لیے لازم ہوگیا۔
Top