Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaafir : 29
یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ١٘ فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَا١ؕ قَالَ فِرْعَوْنُ مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَ مَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَكُمُ : تمہارے لئے الْمُلْكُ : بادشاہت الْيَوْمَ : آج ظٰهِرِيْنَ : غالب فِي الْاَرْضِ ۡ : زمین میں فَمَنْ : تو کون يَّنْصُرُنَا : ہماری مدد کرے گا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ : اللہ کے عذاب سے اِنْ جَآءَنَا ۭ : اگر وہ آجائے ہم پر قَالَ : کہا فِرْعَوْنُ : فرعون مَآ اُرِيْكُمْ : نہیں میں دکھاتا (رائے دیتا) تمہیں اِلَّا مَآ : مگر جو اَرٰى : میں دیکھتا ہوں وَمَآ : اور نہیں اَهْدِيْكُمْ : راہ دکھاتا تمہیں اِلَّا سَبِيْلَ : مگر راہ الرَّشَادِ : بھلائی
اے میری قوم کے لوگو، آج تمہارے ہاتھ میں اقتدار ہے، تم ملک میں غالب ہو، تو اللہ کے عذاب کے مقابل میں ہماری مدد کون کرے گا اگر وہ ہم پر آگیا ! فرعون بولا کہ میں تم کو اپنی سوچی سمجھی رائے بتا رہا ہوں اور میں تمہاری رہنمائی ٹھیک سیدھی راہ کی طرف کر رہا ہوں۔
مرد مومن کی تقریر بالتدریج واضح ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے قوم کے اعیان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج آپ لوگوں کو ملک میں اقتدار حاصل ہے۔ آپ لوگ جو چاہیں کرسکتے ہیں، کوئی آپ کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے۔ لیکن اس سوال پر سنجیدگی سے غور کر لیجیے کہ اگر اس کے نتیجہ میں ہم پر خدا کا عذاب آ دھمکا تو خدا کی پکڑ سے ہم کو بچانے والا کون بنے گا۔ فرعون کی ایک بےمحل مداخلت ’ قال فرعون ما اریکم الا ما اری وما اھدیکم الا سبیل الرشاد ‘۔ مرد مومن کی یہ تقریر بھرے دربار میں، فرعون کے سامنے، ہو رہی تھی اس وجہ سے فرعون نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو تجویز (درباب قتل موسیٰ ؑ آپ لوگوں کے سامنے رکھی ہے وہ میری سوچی سمجھی ہوئی رائے ہے اور یہ میں بالکل صحیح پالیسی کی طرف آپ لوگوں کی راہ نمائی کر رہا ہوں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی یہ نہ گمان کرے کہ میں نے محض جذبہ سے مغلوب ہو کر عاجلانہ طور پر یہ تجویز رکھ دی ہے بلکہ خوب اچھی طرح اس کے نتائج و عواقب پر دور تک سوچ لیا ہے اور یہی پالیسی صحیح ہے۔ اگر یہ فوراً نہ اختیار کی گئی تو اس کے نتائج اس ملک کے حق میں نہایت مہلک ہوں گے۔ ’ ظھرین یہاں لکم ‘ کی ضمیر مجرور سے حال پڑا ہوا ہے۔ ضمیر مجرور سے حال پڑنے کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ فرعون کی اس بےمحل مداخلت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ اندازہ کرلیا تھا کہ اس مرد مومن کی تقریربغیر کسی مداخلت کے جاری رہی تو اس سے اس کے بہت سے درباری متاثرہو جائیں گے اس وجہ سے ہوشیار سیاسی لیڈروں کی طرح اس نے اپنی نیک نیتی، اصابت رائے اور مصلحت اندیشی کی دھونس جمانے کی کوشش کی۔
Top