Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaafir : 36
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَۙ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون يٰهَامٰنُ : اے ہامان ابْنِ لِيْ : بنادے میرے لئے صَرْحًا : ایک (بلند) محل لَّعَلِّيْٓ : شاید کہ میں اَبْلُغُ : پہنچ جاؤں الْاَسْبَابَ : راستے
اور فرعون نے کہا، اے ہامان ! میرے لئے ایک عمارت بنوا کہ میں اطراف میں پہنچوں، آسمانوں کے اطراف میں ،
فرعون کا ایک اشغلہ اوپر آپ نے دیکھا کہ مرد مومن کی تقریر بالتدریج اپنے نقطہ ٔ عروج پر پہنچ گئی جس سے قدرتی طور پر اہل دربار متاثر ہوتے نظر آئے ہوں گے۔ اس وجہ سے فرعون نے پہلے کی طرح پھر مداخلت کی اور درباریوں کو بیوقوف بنانے کے لئے ایک اشغلہ چھوڑا۔ ہامان کو مخاطب کر کے اس نے حکم دیا کہ ہامان ! ایک بلند عمارت بنوائو، میں آسمانوں کے اطراف میں پہنچ کر ذرا موسیٰ کے اس رب کو جھانک کے دیکھنا چاہتا ہوں جس نے اس کے زعم کے مطابق اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ مجھے تو یہ شخص بالکل جھوٹا مدعی معلوم ہوتا ہے۔ ’ وکذلک ذین یفرعون ‘۔ یعنی اتنی واضح تقریر کے بعد بھی فرعون کو قبول حق کی توفیق نہیں ہوئی۔ فکر ہوئی تو اس بات کی ہوئی کہ کسی طرح اپنے درباریوں کو اس تقریر کے اثر سے بچا لے جائے۔ توفیق خیر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ دیدہ دانسہ برائیاں کرتے کرتے دیدہ دلیر ہوجاتے ہیں بالآخر ان کی برائیاں اس طرح ان کی نگاہوں میں کھبا دی جاتی ہیں کہ ان کو چھوڑنے کا تصور بھی ان پر شاق گزرتا ہے۔ چناچہ فرعون کو بھی یہی افتاد پیش آئی۔ اس کے آگے بھی اس کے برے اعمال سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اس کو سیدھی راہ اختیار کرنے سے روک دیا۔ ’ وما کید فرعون الا فی تاب ‘۔ فرعون نے یہ بات محض درباریوں کو فریب دینے اور حضرت موسیٰ ؑ کے استخفاف کے لئے کہی تھی اس وجہ سے قرآن نے اس کو ’ کید ‘ اس کے لئے بھی موجب تباہی ہوا اور اس کی قوم کے لئے بھی۔
Top