Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 11
وَ الَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ١ۚ فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا١ۚ كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ
وَالَّذِيْ نَزَّلَ : اور وہی ذات ہے جس نے نازل کیا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءًۢ : پانی بِقَدَرٍ : ساتھ اندازے کے فَاَنْشَرْنَا بِهٖ : پھر زندہ کیا ہم نے ساتھ اس کے بَلْدَةً مَّيْتًا : مردہ زمین کو كَذٰلِكَ : اسی طرح تُخْرَجُوْنَ : تم نکالو جاؤ گے
اور جس نے آسمان سے پانی اتارا ایک اندازہ کے ساتھ۔ پس ہم نے اس سے حیات تازہ بخش دی ایک مردہ زمین کو۔ اسی طرح تم بھی قبروں سے نکالے جائو گے !
والذی نزل من السمآء مآء بقدر فانشرنا بہ بلدۃ میتاً کذلک تخرجون 11 اللہ تعالیٰ کا کرشمہ ربوبیت اور اسی خدائے عزیز وعلیم کا یہ کرشمہ ربوبیت بھی ہے کہ اس نے آسمان سے پانی اتارا ایک خاص اندازے کے ساتھ پانی کا ایک خاص اندازے کے ساتھ اترنا اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ یہ محض ابرو ہوا کے تصرف سے نہیں بلکہ ایک عزیز وعلیم کی تقدیر سے اترتا ہے جو اپنی حکمت کے تحت صرف اتنا ہی پانی اتارتا ہے جس کا زمین تحمل کرسکتی ہے۔ پھر اس سے یہ بات بھی نکلی کہ آسمان و زمین دونوں کے اندر ایک ہی خدائے عزیز وعلیم کا ارادہ کار فرما ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ آسمان اور زمین میں ایسا تو افق ہوتا کہ آسمان سے پانی اترتا اور زمین اس سے اپنی صلاحیتیں اجاگر کرتی۔ مزید برآں اس سے یہ بات بھی نکلی کہ وہ عزیز وعلیم ہستی نہایت کریم و بندہ پرور ہے کہ ایک خاص اندازے کے ساتھ ہی پانی اتارتی ہے۔ اسی اندازے کے ساتھ زمین کی تمام برکتیں وابستہ ہیں۔ اگر اس میں کوئی خلل واقع ہوجائے تو یہ زمین پانی کی کمی سے بھی تباہ ہو سکتی ہے اور اسکی زیادتی سے بھی۔ بارش کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ فانشرنا بہ بلدۃ میتا کذلک تخرجون یہ بارش کے ایک اور خاص پہلو کی طرف توجہ دلائی اور یہ پہلو چونکہ اس کائنات کی ایک بہت بڑی حقیقت کو آشکارا کرنے والا ہے اس وجہ سے اس کا ذکر متکلم کے صیغے سے فرمایا جو اہتمام خاص پر دلیل ہے۔ فرمایا کہ دیکھتے ہو کہ اسی پانی سے ہم ایک مردہ اور بےآب وگیاہ زمین کو زندہ کردیتے ہیں اور وہ لہلہا اٹھتی ہے۔ اسی طرح ایک دن تم بھی مرنے اور گل سڑ جانے کے بعد اس زمین سے اٹھا کھڑے کئے جائو گے۔
Top