Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 257
وَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَۙ
وَالَّذِيْ : اور وہ ذات خَلَقَ الْاَزْوَاجَ : جس نے بنائے جوڑے كُلَّهَا : سارے کے سارے اس کے وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْفُلْكِ : کشتیوں میں (سے) وَالْاَنْعَامِ : اور مویشیوں میں سے مَا تَرْكَبُوْنَ : جو تم سواری کرتے ہو
اور جس نے تمام گوناگوں قسم کی چیزیں پیدا کیں اور تمہارے واسطے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو
والذین خلق الازواج کلھا و جعل لکم من الفلک والانعام ما ترکبون، لتستوا علی ظھورہ ثم تذکروا نعمۃ ربکم اذا ستویتم علیہ وتقولوا سبحن الذی سخرلنا ھذا وما کنالہ مقرننی، وانآ الی ربنا لمنقلبون (14-12) بعض اور آثار قدرت کی طرف اشارہ اسی خدائے عزیز وعلیم کی پروردگاری کے بعض اور آثار کا ذکر کر کے ان کے متقضیات کی طرف توجہ دلائی جن کا احساس ہر سلیم الفطرت انسان کے اندر پیدا ہونا چاہئے جو ان سے بہرہ مند ہو رہا ہے۔ فرمایا کہ وہی خدا ہے جس نے تمہارے لئے دوسری نوع بنوع چیزیں پیدا کی ہیں۔ لفظ ازواج یہاں گوناگون اور نوع بنوع چیزوں کے مفہوم میں ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ قرآن مجید اور عربی ادب میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ من کل زوج بھیج کے الفاظ سے بھی قرآن میں یہی مفہوم ادا فرمایا گیا ہے۔ اشیاء اور انواع کی گوناگونی اور ان کا جوڑے جوڑے ہونا اس کائنات میں اسی لئے ہے کہ انسان کو اس کائنات کے خالق کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و ربوبیت کی یاد دہانی ہوتی رہے۔ جوڑوں کے اندر جو توافق پایا جاتا ہے اس سے قرآن نے توحید پر جو دلیل قائم فرمائی ہے اس کی وضاحت اس کے محل میں ہوچکی ہے۔ وجعل لکم من الفلک والانعام ما ترکبون یہ عام کے بعد دو خاص چیزوں کا ذکر فرما دیا کہ وہی خدا ہے جس نے تمہارے لئے کشتیاں اور ایسے چوپائے پیدا کئے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ قرآن کے زمانہ نزول میں خشکی اور تری کی یہی سواریاں معروف تھیں اس وجہ سے انہی کا ذکر ہوا۔ اب سائنس کی برکت سے ان سواریوں کی فہرست گو بہت طویل ہوگئی ہے لیکن وہ سب انہی کے تحت ہیں اس لئے کہ جس سائنس کی مدد سے انسان کا ان کا موجد بنا ہے وہ خدا ہی کی ودیعت کردہ ہے۔ نعمتوں کا حق لتستوا، علی ظھورہ … الایۃ یہ ان نعمتوں کا حق بیان ہو رہا ہے کہ خدا نے یہ سواریاں تمہیں اس لئے دی ہیں کہ تم ان سے فائدہ اٹھائو اور ان کے بخشنے والے کا حق پہچانو اور جب تم ان کی پیٹھو پر بیٹھو تو اپنے رب کے اس فضل کو یاد کرو کہ اس نے بغیر کسی استحقاق کے یہ نعمتیں تم کو بخشی ہیں اس وجہ سے تمہارے لئے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان پر سوار ہو کر اپنے غرور کا مظاہرہ کرو بلکہ اس وقت تمہیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ہماری مقصد برآری کے لئے ان کو ہمارے قابو میں کردیا ہے ورنہ ہم تو ان کو قابو میں کرنے والے نہیں بن سکتے تھے۔ لتستموا علی ظھورہ، میں لفظ ظھورا اگرچہ کشتیوں کے لئے زیادہ موزوں نہیں ہے، اس کی واضح مناسبت گھوڑوں یا سواری کے دوسرے جانوروں ہی کے ساتھ ہے، لیکن یہاں لفظ علی سبیل التغلیب استعمال ہوا ہے۔ اس طرح کا استعمال عربی میں معروف ہے۔ مقصود یہی کہنا ہے کہ کشتی پر سوار ہو یا گھوڑے پر اس وقت غرور سے اکڑنے کے بجائے اپنے رب کی نعمت کا شکر ادا کرو لیکن خاص طور پر گھوڑوں کے ذکر کے ساتھ یہ تنبیہ اس لئے فرمائی کہ گھوڑے کا سوار عام پیدل چلنے والوں کے سامنے سے گزرتا ہے اس وجہ سے اس کے اندر اپنے تفوق کا احساس (خاص طور پر جب کہ وہ تنک ظرف بھی ہو) زیادہ شدت کے ساتھ ابھرتا ہے یہاں تک کہ گھوڑے کی طرح خود اس کی گردن بھی اکڑ جاتی ہے۔ یہی چیز اس زمانے میں موٹروں نے کہیں زیادہ بڑھا دی ہے۔ بہت کم خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں جو موٹریں بھلے آدمیوں کی طرح بیٹھیں۔ ان کی رعونت ان کے ہر ادا سے نمایاں ہوتی ہے اور اس قدر بدنما طریقے سے نمایاں ہوتی ہے کہ یہ امتیاز مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ آدمی ہی یا کوئی اور مخلوق ! سبحن الذی سخرلنا ھذا وماکنالہ مقرنین سبحن اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کا کلمہ ہے یعنی وہ ہر قسم کے شرک اور ہر چھوٹے بڑے عیب سے پکا ہے۔ یہ تنزیہہ آدمی کے اندر خدا ہی کے لئے تفویض وتعلیم کا جذبہ ابھاتری ہے اور یہی جذبہ انسان کو غرور و استکبار اور طغیان و فساد سے بچاتا اور اس کے اندر شکر وسپاس کی نیاز مندی و فروتنی پیدا کرتا ہے۔ اقران کے معنی اپنے حریف پر غلبہ پانے اور اس کو مطیع کرلینے کے ہیں۔ یعنی اس وقت انسان کو پوری نیاز مندی کے ساتھ اپنے رب کے حضور میں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ یہ اللہ ہی کی شان اور اسی کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس مرکب کو ہمارا مطیع و فرماں بردار بنا دیا ہے ور نہ ہم تو اس کو قابو کرلینے والے نہیں بن سکتے تھے۔ یہ امر یہاں محلوظ رہے کہ یہ اعتراف ایک حقیقت نفس الامری کا اعتراف ہے۔ اس دنیا میں جو چیزیں بھی ہماری خدمت گزاری میں لگی ہوئی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تسخیر ہی سے لگی ہئوی ہیں یہ تسخیر نہ ہو تو مجرد ہماری تدبیر کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بھی کمند نہیں ڈال سکتی۔ اونٹ جیسے بڑے جانور کی ناک میں آپ نکیل ڈال دیتے ہیں اور گھوڑے کے منہ میں لگام لگا دیتے ہیں۔ یہی کام اگر آپ جنگل کے درندوں کے ساتھ کرنا چاہیں تو ہزار خطرات کا مقابلہ کرنے کے بعد بھی آپ شیر پر سواری نہیں کرسکتے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے ہماری خدمت کے لئے مختلف قسم کے جانو رپیدا لئے اور ہمیں یہ صلاحیت بخشی کہ ہم انکو مسخر کر کے اپنے مختلف مقاصد میں استعمال کرتے ہیں۔ اس زمانے میں بھاپ، بجلی اور ایٹم پر انسان کو تصرف حاصل ہوا ہے وہ بھی خدا ہی کی تسخیر سے حاصل ہوا ہے۔ ان فتوحات نے انسان کو بہت مغرور بنا دیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اب کون و مکان کا مالک سمجھنے لگا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ جب چاہے ان کو انسان کی قید سے آزاد کر کے رحمت کے بجائے عذاب بنا دے یہاں جو دعا تلقین کی گئی ہے اس کا ظاہری تعلق تو اونٹ اور گھوڑے وغیرہ کی سواریوں ہی سے ہے لیکن یہی دعا اس زمان کے دوسری ترقی یافتہ سواریوں کے لئی بھی موزوں ہے، مثلاً موٹر اور ہوائی جہاز وغیرہ البتہ بحری سواریوں کے لئے موزوں تر دعا بسم اللہ مجریھا و مرسھا والی دعا ہے جو حضرت نوح سے منقول ہے۔ ایک بلیغ فقرہ وانا الی ربنا لمنقلبون اوپر جس طرح آیت 10 میں لعلکم تھتدون کے الفاظ نہایت معنی خیز گزرے ہیں اسی طرح یہاں یہ ال فاظ بھی نہایت بلیغ، حقیقت افروز اور فلسفہ دین کی ایک نہایت اہم حقیقت پر روشنی ڈالنے والے ہیں۔ یعنی انسان کو کسی سواری پر بیٹھتے ہوئے صرف اتنی سی بات یاد نہیں رکھنی چاہئے کہ ہم فلاں شہر سے فلاں شہر کو جانے والے ہیں بلکہ اس حقیقت کا بھی تذکر کرنا چاہئے کہ ایک دن ہمیں لازماً اپنے رب کی طرف لوٹنا اور اس کے آگے پیش ہونا یہ۔ اس تذکر کا محرک یہ ہے کہ ہر نعمت خدا کی پروردگاری کی شہادت ہے اور پروردگاری اس بات کو مستلزم ہے کہ پروردگار ایک دن سب کو جمع کر کے ان سے پرسش کرے کہ انہوں نے اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کو کس طرح اسعتمال کیا۔ پھر ان کو نعام دے جنہوں نے ان کو صحیح استعمال کیا ہو اور ان سے انتقام لے جنہوں نے ان کو طغیان و فساد کا ذریعہ بنایا۔ یہ مسئولیت اور جزاء و سزا اس ربوبیت کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ تمام ربوبیت بےمعنی اور یہ دنیا کھلنڈرے کا کھیل بن کے رہ جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت سے دوسری اعلیٰ حقیقت کی طرف گریز کی ایک نہایت خوبصورت مثال ہے جس کے متعدد شواہد اس کتاب میں پیچھے گزر چکے ہیں۔
Top