Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 16
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِیْنَ
اَمِ اتَّخَذَ : یا اس نے انتخاب کرلیں مِمَّا يَخْلُقُ : اس میں سے جو وہ پیدا کرتا ہے بَنٰتٍ : بیٹیاں وَّاَصْفٰىكُمْ : اور چن لیا تم کو بِالْبَنِيْنَ : ساتھ بیٹوں کے
کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے اپنے لیے بیٹیاں پسند کیں اور تم کو بیٹوں سے نوازا !
ام اتخذ مما یخلق بنات و اصغکم بالبنین، واذا بشراحدھم بما ضرب للرحمن مثلاً ظل وجھہ مسوداً وھو کظیم (17-16) مشرکین کے عقیدے کا بھونڈا پن اخلاقی پہلو سے ام استنکار و الستعجاب کے مفہوم میں ہے۔ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں جو قرار دیتے تھے، ان کے اس عقیدے پر ایک دوسرے پہلو سے نکیر فرمائی۔ اوپر والی آیت میں ان کے جزء خدا ہونے کی تردید تھی۔ اس آیت میں ایک نفسیاتی پہلو سے ان کے اس عقیدے کے بھونڈے پن کو واضح فرمایا کہ صرف یہی ستم نہیں ہے کہ خدا کی مخلوقات کو اس کا ایک جزو بنائے دے رہے ہیں بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بیٹیوں کو اپنے لئے تو ایک نہایت نفرت کی چیز سمجھتے ہیں لیکن خدا کی طرف ان کو منسوب کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ جب خدا ہی سب کچھ پیدا کرتا ہے تو اس نے اپنے لئے بیٹیاں کیوں پسند کیں جب کہ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر دی جائے تو غم سے اس کا چرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ برابر گھٹا گھٹا رہنے لگتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس عقیدہ کے گھڑنے میں صرف یہی نہیں کہ عقل سے انہوں نے کوئی کام نہیں لیا بلکہ یہ اس احساس شرافت کی بھی بالکل نفی ہے جو انسانی فطرت کا بالکل بدیہی تقاضا ہے۔ اگر ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ خدا کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا تو کم از کم وہ اتنا انصاف تو کرتے کہ خدا کی طرف وہ چیز نہ منسوب کرتے جس سے وہ خود اس درجہ بیزار و نفور ہیں۔ یہ عقیدہ ایجاد کر کے انہوں نے صرف عقل ہی کی تذلیل نہیں کی ہے بلکہ احساس عدل سے اپنی بےمائگی کا ثبوت بھی دیا ہے۔
Top