Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 26
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم نے لِاَبِيْهِ : اپنے والد سے وَقَوْمِهٖٓ : اور اپنی قوم سے اِنَّنِيْ : بیشک میں بَرَآءٌ : بےزار ہوں مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ : اس سے جو تم عبادت کرتے ہو
اور یاد کرو جب کہ ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ میں ان چیزوں سے بالکل بری ہوں جن کو تم پوجتے ہو۔
-2 آگے کا مضمون … آیات :45-26 آگے حضرت ابراہیم ؑ کی ہجرت اور شرک سے ان کے اعلان برلدت کا حوالہ ہے جس سے مقصود کی حقیقت کا اظہار ہے کہ قریش کا یہ دعویٰ بالکل باطل ہے کہ جس دین شرک کی وہ پیروی کر رہے ہیں یہ ان کو ان کے آباء و اجداد سے وراثت میں ملا ہے۔ ان کے اصل جد امجد تو حضرت ابراہیم ؑ ہیں جنہوں نے شرک ہی کی بنا پر اپنی قوم کو چھوڑا اور ان کی اس ہجرت اور اعلان برأت کی ایت آج تک ان کی ذریت کی دونوں شاخوں میں موجود ہے۔ پھر قریش کس طرح یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے آبائو اجاد کے طریقہ پر چل رہے ہیں۔ اس تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد قریش کی سرکشی کے اصل اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور نبی ﷺ کو تسلی دی ہے کہ تم اپنی دعوق حق پر جمے رہو۔ انبیاء کا اصل راستہ یہی ہے جس کی طرف تم لوگوں کو بلا رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو ابھی تمہارے اور تمہارے مخالفوں کے درمیان فیصلہ کر دے لیکن اس کی سنت یہ ہے کہ ایک خاص حد تک وہ حق کے دشمنوں کو بھی مہلت دیتا ہے … اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ -3 الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت واذ قال ابراھیم لابیہ قومہ آننی برآء مما تعبدون 26 حضرت ابراہیم کے اعلان برأت کی یاد دہانی ’ برآء ‘ مصدر ہے جو صفت کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مصدر جب صفت کے مفہم میں استعمال ہو تو اس کے اندر مبالغہ کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے جیسے زید عدل اس وجہ سے اننی برآء کیم عنی ہوں گے۔ میں تم سے یک قلم بری ہوں، میرے اور تمہارے درمیان اب کوئی رابطہ باقی نہیں رہا۔ یہ حضرت ابراہیم ؑ کے اس اعلان برأت کا حوالہ ہے جس کا ذکر پچھلی سورتوں میں تفصیل سے ہوچکا ہے اور مقصود اس حوالہ سے، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، قریش پر اس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ اپنے شرک کی حمایت میں اپنے آباء و اجداد کا حوالہ جو دیتے ہیں تو آخر اپنے اصل جدامجد کو کیوں بھول جاتے ہیں جنہوں نے شرک سے بیزاری ہی کی بنا پر اپنے باپ اور اپنی قوم کو چھوڑا اور اپنی ذریت کو اس وادی غیر ذی زرع میں بسایا ! مطلب یہ یہ کہ ان کو اگر اپنے اجداد کے دین پر ناز ہی ہے تو سب سے زیادہ مایہ ناز تو حضرت ابراہیم ؑ ہیں جن کی برکت سے ان کو دین اور دنیا دونوں کی نعمتیں ملیں تو آخر ان کو چھوڑ کر انہوں نے ان جاہلوں کی تقلید کیوں اختیار کی جنہوں نے ان کو اصل بزرگ خاندان کے دین سے ہٹا کر شرک کے جوہڑ میں گرایا۔ یہ اعلان برأت حضرت ابراہیم ؑ نے سب سے پہلے اپنے باپ کے سامنے کیا، جیسا کہ واذ قالو ابراہیم لایبہ کے الفاظ سے واضح ہے۔ اس میں قرش کو یہ تنبیہ ہے کہ وہ سوچیں تو ان کے جد امجد نے ان کے لئے روایت تقلدی آباء میں شرک پرستی کی نہیں بلکہ مبتلائے شرک باپ دادا سے بیزاری کی چھوڑی ہے۔
Top