Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 29
بَلْ مَتَّعْتُ هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى جَآءَهُمُ الْحَقُّ وَ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ
بَلْ مَتَّعْتُ : بلکہ میں نے سامان زندگی دیا هٰٓؤُلَآءِ : ان لوگوں کو وَ : اور اٰبَآءَهُمْ : ان کے آباؤ اجداد کو حَتّٰى : یہاں تک کہ جَآءَهُمُ الْحَقُّ : آگیا ان کے پاس حق وَرَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ : اور رسول کھول کر بیان کرنے والا
بلکہ یوں ہوا ہے کہ میں نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو دنیا سے بہرہ مند کیا یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور ایک واضح کردینے والا رسول آیا
بل متعت ھولآء وابآء ھم حتی جآء ھم الحق و رسول مبین، ولما جآء ھم الحق قالوا ھذا سحروانا بہ کفرون (30-29) مخالفت کی اصل علت حق سے مراد قرآن مجید ہے اور ابآء ھم کے بعد فطال علیھم الامہ فقست قلوبھم کے الفاظ بربنائے وضاحت قرینہ محذوف ہیں۔ سورة حدید آیت 16 میں بالکل اسی سیاق میں مذکورہ الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ نیز سورة انبیاء آیت 4 میں یہی مضمون سا طرح آیا ہے : بل بل متعناہ ولآء وابآء ھم حتی طال علیھم العموط (بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو دنیا کی نمتوں سے بہرہ مند کیا یہاں تک کہ اسی حال میں ان پر ایک طویل مدت گزر گئی) مطلب یہ ہے کہ یہ تو محض ان کی سخن سازی ہے کہ قرآن کی مخالفت وہ اس بنا پر کر رہے ہیں کہ اس کی دعوت ان کے دین آباء کے خلاف ہے بلکہ اس مخالفت کی اصل علت یہ ہے کہ اللہ نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند کیا اور اس رفاہیت پر ایک طویل مدت گزر چکی ہے جس کے سبب سے ان کے دلوں پر قساوت چھا گئی ہے۔ اب جو ان کے پاس قرآن اور حقائق کردینے والا رسول آیا تو یہ دعوت وتعلیم ان کے دلوں پر شاق گزر رہی ہے۔ وہ اس کے قبول کرنے میں اپنے دنیوی مفادات کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں اس وجہ سے اپنے عوام کو اس سے برگشتہ کرنے کے لئے اس کو سحر قرار دیتے ہیں۔ قرآن کو سحر کہنے کی اصل علت قرآن کو قریش جو سحر کہتے تو اس کا ایک خاص پہلو تھا جس پر ہم دوسرے مقام پر روشنی ڈال چکے ہیں۔ کوئی حقیقت اگر صحیح الفاظ میں سامنے آئے تو لازماً وہ دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ قرآن چونکہ سراسر حقیقت ہے۔ جیسا کہ لفظ حق سے واضح ہے اور اس کا اسلوب بیان بھی معجزانہ ہے اس وجہ سے وہ قدرتی طور پر ان لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتا جو مفاد پرست نہیں تھے اور جن کو قریش کے لیڈروں کی طرح یہ اندیشہ نہیں تھا کہ اس کے ظہور سے ان کی سیاوت کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو قرآن کے اثر سے بچائے رکھنے کے لئے قریش کے لیڈر یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ قرآن ایک لغو اور بےمعنی کتاب ہے۔ اگر وہ یہ کہتے تو ان کے عوام خود ان کو بیوقوف ٹھہراتے کہ یہ سورج پر خاک ڈالنے کی کوشش ہے البتہ وہ عوام کہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ قرآن میں جو بلاغت و جزالت ہے وہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ یہ آسمان سے نازل ہوا ہے، جیسا کہ اس کے پیش کرنے والوں کا دعویٰ ہے، بلکہ یہ محض الفاظ کی جادوگری ہے جس میں ہمارے شاعروں اور خطیبوں کی طرح اس کو پیش کرنے والا بھی ماہر ہے۔ گویا ان کی کوشش یہ تھی کہ لوگوں کے دلوں پر یہ اثر پڑنے نہ پائے کہ قرآن خدائی وحی ہے بلکہ لوگ اس کو اسی درجے میں رکھیں جس درجے میں اپنے بڑے شاعروں اور خطیبوں کے کلام کو رکھتے ہیں۔
Top