Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 37
وَ اِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ
وَاِنَّهُمْ : اور بیشک وہ لَيَصُدُّوْنَهُمْ : البتہ روکتے ہیں ان کو عَنِ السَّبِيْلِ : راستے سے وَيَحْسَبُوْنَ : اور وہ سمجھتے ہیں اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ : بیشک وہ ہدایت یافتہ ہیں
اور وہ ان کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں۔
وانھم لیصدونھم عن السبیل ویسحبون انھم مھتدون 37 زبان کے بعض استعمالات اوپر والی آیت میں حرف من چونکہ مبہم ہے، واحد اور جمع دونوں ہی کے لئے آسکتا ہے، نیز لفظ شیطان بھی عام ہے، اس سے شیاطین جن بھی مراد ہو سکتے ہیں اور شیاطین انس بھی، اس وجہ سے آیت زیر بحث میں ضمیریں جمع آئیں۔ یہاں حال ایک پورے گروہ کا بیان ہو رہا ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ اس طرح شیطان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ان کا حشر یہ ہوتا ہے کہ شیاطین تو ان کو سیدھی راہ سے روک دیتے ہیں لیکن ان کے پھندوں میں پھنسے ہوئے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ بالکل سیدھی راہ پر چل رہے ہیں۔ یہاں ضمیروں کا انتشار بھی قابل توجہ ہے۔ انھم کی ضمیر کا مرجع تو شیاطین ہیں اور بحسبون، کے فاعل وہ لوگ ہیں جو شیاطین کے پھندوں میں گرفتار ہیں۔ لیکن جہاں کلام کا مفوہم واضح ہو وہاں ضمیروں میں اس قسم کا اتنظار کوئی عیب نہیں ہے۔ اس کی ایک نہایت واضح مثال سورة یوسف کی مندرجہ ذیل آیت میں گزر چکی ہے۔ حتی اذا ستیئس الرسل وظنوا انھم قدکذبوا جآء ھم نصرناً … یاں تک کہ جب رسول اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہو کر جاتے ہیں اور ان کی قوم کے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ان کو جھوٹ موٹ عذاب کا ڈرائونا سنایا گیا تھا تو رسولوں کے پاس ہماری مدد آجاتی ہے۔
Top