Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 79
اَمْ اَبْرَمُوْۤا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَۚ
اَمْ اَبْرَمُوْٓا : بلکہ انہوں نے مقرر کیا اَمْرًا : ایک کام فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ : تو بیشک ہم مقرر کرنے والے ہیں
کیا انہوں نے کوئی قطعی فیصلہ کرلیا ہے تو ہم بھی ایک قطعی فصلہ کرلیں گے۔
ام ابراموآ امرافانا صبرمون 79 ابرام کے معنی کسی امر کو محکم کرنے کے ہیں۔ ’ ابرم الحبل“ کے معنی ہوں گے رسی کو اچھی طرح مضبوط بٹا۔ یہاں یہ کسی بات کا قطعی فیصلہ کرلینے کے مفہوم میں آیا ہے۔ قریش کو فیصلہ کن عذاب کی دھمکی یہ قریش کو فیصلہ کن عذاب کی دھمکی دی ہے اور دھمکی میں شدت پیدا کرنے کے لئے اسلوب اچانک حاضر سے غائب کا اختیار کرلیا ہے گویا وہ لائق خطاب و التفات نہیں رہے۔ فرمایا کہ اگر انہوں نے ایک قطعی فیصلہ کرلیا ہے تو لازماً ہم بھی ایک قطعی فیلہ کرلیں گے۔ یعنی انہوں نے اگر قرآن اور رسول کی تکذیب کا فیصلہ کرلیا ہے تو یاد رکھیں کہ اس کے بعد اپنی سنت کے مطابق ہم بھی ان کو ہلاک کردینے کا فیصلہ کرلیں گے۔ رسولوں کے باب میں اس سنت الٰہی کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ گزر چکی ہے کہ جب قوم رسول کے اخراج یا اس کیق تل کا فیصلہ کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو مزید مہت نہیں دیتا بلکہ رسول اور اس کے باایمان ساتھیوں کو اپنی امان میں لے لیتا اور قوم کو ہلاک کردیتا ہے۔ یہاں اسی سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے کہ اگر یہ لوگ رسول کی تکذیب کے معاملے میں یکسو ہوگئے ہیں تو اب لازماً یہ سنت الٰہی کی زد میں بھی آجائیں گے اور کوئی چیز اس سے ان کو بچانے والی نہیں بنے گی۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ قوم جب تک رسول کی دعوت کے باب میں مذبذب رہتی ہے اس وقت تک تو اللہ تعالیٰ اس کو مہلت دیتا ہے لیکن جب وہ داعی اور دعوت کو ختم کردینے کا حتمی فیصلہ کرلیتی ہے تو اس کے باب میں خدا کا آخری فیصلہ بھی ظہور میں آجاتا ہے۔
Top