Tadabbur-e-Quran - Al-Fath : 26
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
اِذْ جَعَلَ : جب کی الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : اپنے دلوں میں الْحَمِيَّةَ : ضد حَمِيَّةَ : ضد الْجَاهِلِيَّةِ : زمانۂ جاہلیت فَاَنْزَلَ اللّٰهُ : تو اللہ نے اتاری سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسلی عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول پر وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں پر وَاَلْزَمَهُمْ : اور ان پر لازم فرمادیا كَلِمَةَ : بات التَّقْوٰى : تقوی کی وَكَانُوْٓا : اور وہ تھے اَحَقَّ بِهَا : زیادہ حقدار اس کے وَاَهْلَهَا ۭ : اور اس کے اہل وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمًا : جاننے والا
اس وقت کا خیال کرو جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی جاہلیت کی حمیت۔ تو اللہ نے اپنی طماینت نازل فرمائی اپنے رسول اور ایمان والوں پر اور ان کو پابند رکھا تقویٰ کی بات کا اور یہ اس کے حقدار اور سزا وار تھے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیۃ حمیۃ الجاھلیۃ فانزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المومنین والزمھم کلمۃ التقویٰ وکانوا احق بھا واھلھا وکان اللہ بکلک شیء علیماً 26 نہایت نازک حالات میں مسلمنوں نے اخلاقی برتری کا ثبوت دیا یہ مسلمانوں کی اخلاقی برتری واضح فرمائی ہے کہ ہرچند قریش نے قدم قدم پر حمیت جاہلیت کا مظاہرہ کیا جس سے مسلمان مشتعل ہو سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو بھی اور مسلمانوں کو بھی یہ توفیق بخشی کہ وہ ان نازک حالات سے نہایت صبر و سکون اور حلم و تدبر کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے، حریف کی اوچھی حرکتوں سے متاثر ہو کر کوئی ایسا قدم انہوں نے نہیں اٹھایا جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور دین کے مصالح کے خلاف ہو۔ سکینت، سے مراد یہاں صبر، حلم، رزانت اور حکمت و تدبر ہے۔ اجتماعی زندگی میں ایسے مراحل بہت پیش آتے ہیں جب کسی جماعت کے حلم و تدبر کا نہایت سخت امتحان ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر اگر جماعت حریف کے رویہ سے مشتعلہ و کر کوئی عاجلانہ قدم اٹھا دے تو اس سے اصل مقصد کو ناقبال تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ ایسے امتحانات سے کوئی جماعت اور اس کے لیڈر حسن و خوبی سے عہدہ برآ ہوتے ہیں اور یہ توفیق ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ہر حال میں اپنے رب سے وابستہ رہتے ہیں۔ قریش کی طرف سے حمیت جاہلیت کا مظاہرہ حمیت جاہلیت، سے اشارہ قریش کے لیڈروں کی ان حرکتوں کی طرف ہے جو انہوں نے حق و عدل کے بالکل خلاف محض اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے کیں۔ مثلاً ان پر یہ حقیقت واضح تھی کہ آنحضرت ﷺ صرف عمرہ کے لئے تشرف لائے ہیں، جنگ کا نہ آپ کے دل میں کوئی خیال ہے نہ اس کا آپ کے پاس کوئی سامان ہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ کسی طرح آپ کو اللہ کے گھر میں داخل ہونے اور اس کے حضور میں اپنے لائے ہوئے ہدیے پیش کرنے کی اجازت دینے پر راضی نہ ہوئے۔ حضور ﷺ نے اپنے جو سفیر ان کے پاس اپنی آمد کی غرض سے آگاہ کرنے کے لئے بھیجے ان کی سفارتی حیثیت کا نہ صرف یہ کہ انہوں نے کوئی احترام نہیں کیا بلکہ ان میں سے ایک سفیر کے وہ قتل کے در پے ہوگئے اور دوسرے کو انہوں نے اس طرح لیت و لعل میں رکھا کہ مسلمانوں کے اندر یہ افواہ پھیل گئی کہ اس کو بھی انہوں نے قتل کردیا۔ معاہدہ حدیبیہ کی شرائط طے کرنے میں انہوں نے بالکل بےضرورت الجھنیں پیدا کیں اور ایسی شرطیں اس میں داخل کرنے پر اصرار کیا جن کا کوئی سیاسی فائدہ ان کو حاصل نہیں ہوا بس وقتی طور پر ان کو یہ تسلی ہوگئی کہ ان کی بات اونچی رہی۔ مسلمانوں کا علم اور تقویٰ قریش کے اس رویہ کا قدرتی ردعمل مسلمانوں پر یہی ہوسکتا تھا کہ وہ اشعتال میں آ کر اینٹکا جواب پتھر سے دین لیکن اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ سکنیت کے فیض سے وہ اللہ اور رسول کے فیصلہ پر راضی رہے۔ والزمھم کلمۃ التقویٰ یعنی یرش کی ان تمام اشتعال انگیز حرکتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کلمہ تقویٰ کا پابند رکھا۔ کلمہ تقویٰ سے مراد پیغمبر ﷺ کے سامنے جاں نثار صحابہ کا یہ اعتراض و اعلان ہے کہ رضیت باللہ رباً و بحمد رسولاً وبالا سلام دینا یہی کلمہ شیطان اور اس کے ایجنٹوں کے وسوسہ اندازیوں کے مقال میں ہمیشہ صداقت شعار اور باوفا مسلمانوں کی سپر رہا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے جب کبھی ایسے حالات پیش آئے کہ انہیں روسل کی کوئی بات بظاہر خلاف مصلحت محسوس ہوئی ہے تو انہوں نے اس کو ایک وسوسہ خیال کیا اور اس وسوسہ کو اس اعتراف سے رفع کیا۔ یہی عظیم کلمہ اس نازک موقعہ پر بھی مسلمانوں کی ڈھال بنا اور وہ رسول کے فیصلہ پر راضی رہے اگرچہ ان کے جذبات اور ان کی امنگوں کا مطالبہ کچھ اور تھا۔ وکانوا حق بھا واھلھا عینی اس کلمہ تقویٰ پر استقامت ہر مدعی کو حاصل نہیں ہوتی بلکہ انہی کو حاصل ہوتی ہے جو اس کے حق دار اور اہل ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ چونکہ اس کے حق دار اور اہل تھے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان نازک حالات کے اندر بھی استوار رکھا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ایمان کو ضائع نہیں ہونے دیتا جو اپنے ایمان کی قدر کرتے اور ہر قسم کے حالات کے اندر اس پر استوار رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وکان اللہ بکل شی علیماً یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے مال سے بیخبر نہیں رہتا۔ وہ ان آزمائشوں سے بھی باخبر رہتا ہے جن میں وہ ڈالے جاتے ہیں اور ان حالات و احساسات سے بھی پوری طرح آگاہ رہتا ہے جن سے وہ گزرت یہیں۔ اگر بندے اپنا وہ فرض ادا کرتے ہیں جو ان سے مطلوب ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ ہر کام پر ان کا مددگار و کار ساز بنتا ہے۔
Top