Tadabbur-e-Quran - Al-Fath : 29
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ١ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ١ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
مُحَمَّدٌ : محمد رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے رسول وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مَعَهٗٓ : ان کے ساتھ اَشِدَّآءُ : بڑے سخت عَلَي الْكُفَّارِ : کافروں پر رُحَمَآءُ : رحم دل بَيْنَهُمْ : آپس میں تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھے گا رُكَّعًا : رکوع کرتے سُجَّدًا : سجدہ ریز ہوتے يَّبْتَغُوْنَ : وہ تلاش کرتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے، کا وَرِضْوَانًا ۡ : اور رضا مندی سِيْمَاهُمْ : ان کی علامت فِيْ وُجُوْهِهِمْ : ان کے چہروں میں مِّنْ : سے اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ : سجدوں کا اثر ذٰلِكَ : یہ مَثَلُهُمْ : انکی مثال (صفت) فِي التَّوْرٰىةِ : توریت میں وَمَثَلُهُمْ : اور انکی مثال (صفت) فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ : انجیل میں كَزَرْعٍ : جیسے ایک کھیتی اَخْرَجَ : اس نے نکالی شَطْئَهٗ : اپنی سوئی فَاٰزَرَهٗ : پھر اسے قوی کیا فَاسْتَغْلَظَ : پھر وہ موٹی ہوئی فَاسْتَوٰى : پھر وہ کھڑی ہوگئی عَلٰي سُوْقِهٖ : اپنی جڑ (نال) پر يُعْجِبُ : وہ بھلی لگتی ہے الزُّرَّاعَ : کسان (جمع) لِيَغِيْظَ : تاکہ غصہ میں لائے بِهِمُ : ان سے الْكُفَّارَ ۭ : کافروں وَعَدَ اللّٰهُ : وعدہ کیا اللہ نے الَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے اعمال کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے مِنْهُمْ : ان میں سے مَّغْفِرَةً : مغفرت وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
محمد، رسول کے رسول اور جو انکے ساتھ ہیں وہ کافر پر سخت آپس میں رحم دل ہیں۔ تم ان کو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں رکوع و سجود میں سر گرم پائو گے۔ ان کا امتیاز ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان سے ہے۔ ان کی یہ تمثیل تورات میں ہے اور انجیل میں ان کی تمثیل یوں ہے کہ جیسے کھیتی ہو جس نے نکالی اپنی سوئی، پھر اس کو سہارا دیا، پھر وہ سخت ہوئی پھر وہ اپنے تنہ پر کھڑی ہوگئی کسانوں کے دلوں کو موہتی ہوئی تاکہ کافروں کے دل ان سے جلایء۔ اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے مغفرت اور ایک اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم ترھم رکعا سجداً یبتغون فضلاً من اللہ رضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ط ذلک مثلھم فی التورائۃ ومثلھم فی الانجیل کزرع اخرج شطہ فازرہ فاستفلغظ فاستوی علی سوقہ یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار وعد اللہ الذین امنوا وعملوا الصلحت منھم مغفرۃ و اجرا عظیماً 29 ان تثیلات کا حوالہ جو اسلام کی تاریجی غبہ سے متعلق سابق صحیفوں میں ہیں۔ یہ آخر میں ان تمثیلوں کا حوالہ ہے جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کی صفات اور اسلام کی تاریجی غلبہ سے متعلق تورات و انجیل میں وارد ہیں۔ اس حوالہ سے ایک مقصد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو سابق صحیفوں کے آئینہ میں اس کی تصویر دکھا دی جائے تاکہ ان کو بشارت بھی حاصل ہو اور وہ اپنی ان صفات سے اچھی طرح آشنا بھی ہوجائیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو تصف دیکھنا چاہا ہے اور جو خلق میں ان کو متعارف کرانے والی ہیں۔ دوسرا یہ کہ اہل کتاب کو متنبہ کیا جائے کہ وہ جان کر انجان بننے اور حق کو چھپانے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو پہلے سے اس لئے آگاہ کیا تھا کہ جب وقت آئے گا وہ شہادت دینے والے بنیں گے۔ لیکن یہ ان کی بدبختی ہے کہ وہ شہادت دینے کے بجائے مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ تیرسا یہ کہ مسلمانوں پر یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اسی سر زمین میں ان کو غلبہ تو ضرور عطا فرمائے گا لیکن یہ تملبہ باتدریج ظہور میں آئے گا۔ نہ انہیں جلد بازی کرنی چاہئے نہ حالات سے مایوس ہونا چاہئے۔ جو بیج انہوں نے ڈالا ہے صبر و استقامت کے ساتھ اس کی آبیاری اور دیکھ بھال میں لگے رہیں۔ وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایسا تناور درخت بنائے گا کہ ایک دنیا اس کے سایہ میں پناہ لے گی۔ تورات میں وارد ایک تمثیل کی طرف اشارہ محمد رسول اللہ کا ترجمہ عام طور پر مترجموں نے مبتدا اور خبر کا کیا ہے لیکن میرے نزدیک رسول اللہ یہاں صفت اور عطف بیان کے حکم میں ہے۔ خبر اس کے آگے اشدآء و علی الکفار … الایۃ ہے۔ یہ تورات میں وارد ایک تمثیل کی طرف اشارہ ہے جس میں پورے زمرہ مومنین کی تصویر اس طرح پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس میں گل سرسبد کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر رسول اللہ پر وقف اور والذین معہ سے استیفاف مان لیا جائیت و آیت کی یہ بلاغت ختم ہوجائے گی۔ اس پورے گروپ کا اصل جمال اسی وصرت میں نمایاں ہوگا جب رسول اللہ ﷺ کو اس میں سرتاج کی حیثیت حاصل رہے جیسی کہ فی الواقع ہے۔ چٹان کی طرح سخت موم کی طرح نرم والذین معہ اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم یہ آپ کی اور آپ کے صحابہ کی ایک امتیازی خصوصیت بیان ہوئی ہے کہ وہ کفار کے لئے ایک چٹان کی طرح مضبوط و سخت اور باہمدگرموم کی طرح نرم ہیں یعنی ان کی تمام حمیت و عصبیت ایمان و اسلام پر قائم ہے۔ جو ایمان و اسلام میں ان کے شریک نہیں ہیں وہ اگر ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہیں تو ان کے اندر انگلی دھنسانے کی کوئی گنجائش نہیں پائیں گے۔ برعکس اس کے اپنے شریک ایمان بھائیوں کے لئے وہ سراپا رحمت و شفقت ہیں۔ یہی مضمون بعینیہ اسی سیاق و سبقا کے ساتھ سورة مائدہ کی آیت 54 میں اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین کے الفاظ سے بیان ہوا ہے چونکہ یہ دونوں آیتیں ایک ہی مضمون کی ہیں اس وجہ سے وہاں ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس کا ضروری حصہ یہاں بھی نقل کئے دیتے ہیں تاکہ اس ٹکڑے کا صحیح مفہوم اس کی نظری کروشنی میں واضح ہوجائے۔ اذلۃ علی المومنین عزۃ علی الکفرین کی وضاحت کرتے ہوئے ہم نے لکھا ہے اذتۃ دلیل کی جمع ہے۔ عربی میں یہ لفظ جیسا کہ آل عمران آیت 123 کے تحت ہو بتا چکے ہیں، اچھے اور برے دونوں معنوں میں آتا ہے۔ بج یہ اچھے معنوں میں آتا ہے جیسا کہ یہاں ہے تو اس کے معنی نرم ہو ؟ نرم مزاج، فرمانبردار، متواضع اور سہل الانقیاد کے ہوتے ہیں۔ ذلول کا لفظ بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ فرمانبردار اونٹنی کو ناقہ ذلول، کہتے ہیں۔ ‘ ذ اعزۃ عزیز کی جمع ہے۔ یہ لفظ بالکل ذلیل کے مقابل لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے معنی ہیں سخت، شکل، بھاری، نقابل شکست ناقابل عبور، عسیر الانقیاد اگر کسی چیز کے متعلق کہیں کہ ھو عزیز علی تو اس کے معنی ہوں گے کہ وہ چیز مجھ پر بھاری اور شکل ہے۔ اس کو رام کرنا اور قابو میں کرنا میرے لئے دشوار ہے۔“ اسی ضمن میں ہم نے شدید علی کا مفہوم بھی اسی طرح واضح کیا ہے۔ ”یہی مفہوم شدید علی کا بھی ہوتا ہے۔ کسی حماسی کا نہایت عمدہ شعر ہے۔ اذا الموء اعیتہ المردۃ ناشائً فمطلبھا کھلا علیہ شدید (اگر اٹھتی جوانی میں اولوالعزمی پیدا کرنے سے آدمی قاصر رہجاتا ہے تو ادھیڑ پن میں اس کا حاصل کرنا نہایت دشوار ہوجاتا ہے۔) ”مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے تو وہ نہایت نرم خو، بھولے بھالے، ہر پہلو سے لچک قبول کرنے والے اور ہر سانچے میں ڈھل جانے والے ہوں گے لیکن کافروں کے لئے وہ پتھر کی چٹان ہوں گے۔ وہ اگر اپنے اغراض و مقاصد کے لئے ان کو استعمال کرنا چاہیں گے تو کہیں سے انگلی دھنسانے کی جگہ نہ پا سکیں گے سیدنا مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کبوتر کے مانند بےآزاد اور سانپ کی مانند ہوشیار بنو، اس میں بھی یہی دونوں پہلو محلوظ ہیں۔ 1“ یہ امر بھی یہاں محلوظ رہے کہ جس سیاق وسباق میں یہ سورة مائدہ والی آیت آئی ہے بعینہ اسی سیاق وسباق میں یہ الفتح والی آیت بھی وارد ہوئی یہ۔ وہاں ہم واضح کرچکے ہیں کہ منافقین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کا کردار اسلامی کردار کے بالکل برعکس واقع ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اہل ایمان کے لئے نہایت سہل الانقیاد اور کافر کے لئے عسیر الانقیاد ہوتے۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ کفار کے ہاتھوں میں تو وہ کھلونا بنے ہوئے ہیں لیکن مسلمانوں کو دھوکا دینے میں بڑے شاطر ہیں۔ اسی طرح اس سورة میں بھی یاد ہوگا۔ منافقین کا کردار آیات 18-6 میں تفصیل سے زیر بحث آیا ہے۔ آخر میں مسلمانوں کے اجتماعی کردار کا یہ پہلو اس لئے نمایاں کیا گیا ہے کہ منافقین اس آئینہ میں اپنی صورت دیکھیں کہ مسلمانوں کا کردار کیا ہونا چاہئے اور وہ کس کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ پیغمبر اور اس کے جاں نثار ساتھیوں کے لئے تو روز بد کے منتظر ہیں اور کفار کو جا جا کر اطمینان دلا رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے آپ لوگوں کو کوئی خطرہ پیش آیا تو ہم آپ ہی لوگوں کا ساتھ دیں گے۔ اشدآء علی الکفار کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کے باعث بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ اسلام روزمرہ زندگی کے سلوک و طرز عمل میں یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان کا رویہ ہر غیر مسلم کے ساتھ کرخت اور بیزار نہ ہو حالانکہ یہ بات نہ قرآن کے الفاظ سے نکلتی ہے اور نہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے طرز عمل سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ہم نے الفاظ اور نظائر کی روشنی میں آیت کی جو تاویل کی ہے امید ہے کہ وہ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے کافی ہوگی۔ خلق اور خالق دونوں کے ساتھ مربوط زندگی تربھم رعاً سجد ایبتغون فضلاً من اللہ وضرواناً یہ ان کی توجہ الی اللہ ان کی شب بیداری اور ان کی تہجد گزاری کی تصویر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو بھی ان کو دیکھے گا اس پر پہلی ہی نظر میں یہ بات واضح ہوجائے گی کہ دنیا کے عام انسانوں سے بالکل مختلف یہ ایسے قدسی صفت لوگوں کی ایک جماعت ہے جن کی زندگی کا اصلی نصب العین خدا کی رضا طلبی ہے چناچہ کبھی وہ ان کو رکوع ہو پائے گا کبھی سجود میں اوپر والے ٹکڑے میں ان کا وہ پہلو سامنے آیا ہے جس کا تعلق خلق سے ہے۔ اس ٹکڑے میں ان کی زندگی کے اس پہلو کی طرف اشارہ ہے جس کا تعلق خالق سے ہے یعنی خلق کے ساتھ بھی ان کا تعلق بالکل صحیح بنیاد پر قائم ہے کہ وہ اہل باطل کے مقابل میں نہایت سخت اور اہل حق کے لئے نہایت نرم خو ہیں اور خالق کے ساتھ بھی ان کا ربط نہایت محکم و استوار ہے کہ کسی وقت بھی وہ اس سے غافل نہیں ہوتے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں سندیدہ زندگی وہی ہے جو خلق اور خالق دونوں سے بالکل صحیح بنیاد پر مربوط ہو۔ اگر اس میں کسی پہلو سے خدا بھی خلل پیدا ہوجائے تو انسان کی ساری زندگی بےہنگم ہوجاتی ہے۔ صحابہ کی ایک خاص علامت امتیاز سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود یہ ان کی خاص علامت امتیاز کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان نمایاں ہیں۔ الفاظ سے یہ بات صاف نکل رہی ہے کہ یہاں وہی نشان مراد ہیں جو کثرت سجود سے پیشانی پر پڑجاتے ہیں اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ نشان بہت محبوب ہیں یہاں تک کہ وہ چاہتا ہے کہ اس دنیا کے اندر یہ امت اسی نشان سے دوسری امتوں کے مقابل میں پہچانی جائے۔ یہ ساری باتیں الفاظ قرآن سے واضح ہیں اس وجہ سے ہم ان لوگوں کی رائے صحیح نہیں سمجھتے جنہوں نے ان الفاظ کو ان کے ظاہر معنی سے ہٹا کر انکے مجازی معنی لینے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں اس امر سے انکار نہیں ہے کہ بعض لوگ محض ریا کے لئے بھی اپنی پیشانی پر گھٹا ڈالنے کی کوشش کرتے ہوں گے لیکن محض اس بنا پر کہ کچھ لوگوں کے گھٹنے محض نمائشی ہوتے ہیں اہل ایمان کے اس عظیم نشان امتیاز کے وقعت کم نہیں کی جاسکتی۔ ریا کا امکان جس طرح اس چیز کے اندر ہے اسی طرح دین کے ہر اعلیٰ و ادنیٰ کام میں ہو سکتا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بعض لوگوں کو ٹوکا کہ انہوں نے اپنی پیشانیوں پر گھٹے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ حضرت عمر ؓ لوگوں کے حالات سے بہت باخبر تھے۔ اگر انہوں نے کسی شخص کو اس طرح کی کسی بات پر تنبیہ کی تو مسلمانوں کے ایک مربی و معلم ہونے کی حیثیت سے ان کا یہ حق تھا اور اس کا ایک محل ہے۔ اس سے امت کے اس نشان امتیاز کی بےوقعتی نہیں ہوتی جس کا آیت زیر بحث میں حوالہ ہے۔ پیشین گوئیوں میں یہود کی تحریفات ذلک ثلھم فی التورتۃ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کی یہ تمثیل تورات میں بیان ہوئی ہے۔ یہ اشارہ ان پیشین گوئیوں کی طرف ہے جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کے باب میں تورات، زبور اور یسعیاہ نبی کے صحیفوں میں ہیں اگرچہ یہود نے قطع و برید کر کے ان کو بالکل مسخ کردیا ہے اور مسخ کرنے کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ جن الفاظ کی نسبت بھی ان کو گمان ہوجاتا ہے کہ مسلمان ان کو اپنے حق میں اسعتمال کرسکتے ہیں ان پر فوراً تحریف کی قینچی چلا دی جاتی ہے۔ تاہم آج بھی تورات اور انجیل دونوں میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا مصداق آنحضرت ﷺ کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ مثلاً استثنا باب 3 و، 2 میں ہے : ”خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔“ اس پیشین گوئی کا مصداق آنحضرت ﷺ کے سوا ظاہر ہے کہ دوسرا نہیں ہوسکتا اس میں جبل فارن کا ذکر بھی ہے اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آپ کے نمودار ہونے کا صریح الفاظ میں حوالہ بھی ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں قرآن نے اس پیشین گوئی کا حوالہ مسلمانوں کے غلبہ و تمکن ہی کے پہلو سے دیا ہے اور یہ ایک مسلم تاریخی حقیقت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار صحابہ آپ کے ہمرکاب تھے۔ یہ تو صرف خدائے علام الیغبو ہی کو علم ہے کہ اس پیشین گوئی میں کتنی تحریفیں ہوچکی ہیں لیکن ایک تازہ مثال اس میں تحریف کی یہ ہے کہ ”دس ہزار قدوسیوں“ کے الفاظ جو اس میں وارد ہیں اب بعض نسخوں میں بدل کر وہ ”دس لاکھ“ کردیئے گئے ہیں جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ مسلمان اس کو فتح مکہ پر منبطق نہ کرسکیں۔ تاہم اس پر اچھی طرح غور کیجیے تو اس میں ان تمام باتوں کی طرف اشارہ ہے جن کا قرآن نے حوالہ دیا ہے۔ اس میں دس ہزار قدوسویں کا حوالہ ہے۔ قدوسیوں سے مراد ظاہر ہے کہ پاکیزہ صفات نیک نہاد، خدا ترس اور عبادت گزار بندے مراد ہیں۔ قرآن میں اس کی جگہ ترئھم رکعا سجداً …سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود کے ال فاظ ہیں۔ اب یا تو یہ ہوا ہے کہ قرآن نے تورات کے لفظ قوسیوں، کو قدوسیوں کی صفات بیان کر کے اچھی طرح شناخت کر ادی ہے تاکہ اہل کتاب پہچان لیں کہ جن قدوسیوں کا ان صحیفوں میں ذکر آیا ہے وہ یہی لوگ ہیں جو محمد ﷺ کے ساتھ ہیں اور جو عنقریب دس ہزار کے لشکر کی صورت میں ظاہر ہو کر اس پیشین گوئی کی تصدیق کردیں گے۔ یا پھر یہ ہوا ہے کہ تورات میں بھی یہ تمام صفات بیان ہوئی ہوں لیکن یہود نے جس طرح آنحضرت ﷺ سے متعلق دوسری پیشین گوئیوں کو چھپانے کی کوشش کی اسی طرح یہاں بھی تمام صفات کو غائب کر کے قدوسویں، کا لفظ رکھ دیا تاکہ اس کی تاویل اپنے منشا کے مطابق کرسکیں۔ امکان ان دونوں ہی باتوں کا ہے لیکن کوئی منصف اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ تورات کی اس پیشین گوئی کے مصداق ہو سکتے ہیں تو صرف رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہی ہو سکتے ہیں۔ دوسری خاص بات جو اس پیشین گوئی میں ہے وہ یہ ہے کہ ”اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔ ‘ ”آتشی شریعت“ ہمارے نزدیک تعبیر ہے اس مضمون کی جو قرآن میں اشدآء علی الکفار کے الفاظ سے بیان ہوا ہے۔ اس کی وضاحت حضرت مسیح ؑ نے اپنے الفاظ میں یوں فرمائی ہے کہ ”اس کے ہاتھ میں (یعنی پیغمبر خاتم ﷺ کے ہاتھ میں) اس کا چھاج ہوگا، وہ اپنے کھلپان کو خوب صاف کرے گا، دانے کو بھس سے الگ رہے گا پھر دانے کو محفوظ کرے گا اور بھس کو جلا دے گا۔“ ‘ یہی حقیقت حضرت مسیح ؑ نے دوسرے ا لفاظ میں یوں بیان فرمائی ہے : ’ دجس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا … اسی لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دی دی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔“ متی باب 21، 45-33 کتاب استثنا کی مذکورہ بالا پیش گوئی میں یہ الفاظ بھی ہیں : ”وہ بےسک قوموں سے محبت رکھتا ہے۔ اس کے سب مقدس لوگ تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں میں بیٹھے ایک ایک تیری باتوں سے متضیض ہوگا۔ ‘ ذ خط کشیدہ الفاظ پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اگرچہ ترجمہ نے کلام کے رخ کو مبہم بنا دیا ہے تاہم یہ وہی بات فرمائی گئی ہے جس کا سراغ قرآن نے ترلھم رعاً سجداً ایبتغون فضلا من اللہ رضواناً کے الفاظ میں دیا ہے۔ انجیل کی تمثیل کا حوالہ ومثلھم فی الانجیل کزرع اخرج شطئہ نازرہ فاستغلظ فاستوی علی سوقہ یعجب الزراع لیغیظ بھم الکفار تورات کی تمثیل کے بعد یہ انجل کی تمثیل کا حوالہ ہے۔ تورات کی تمثیل میں اہل ایمان کے زہد و تبتل ان کے غلبہ و تمکن اور امتوں کے ساتھ ان کے عدل اور رحم کی تصویر ہے۔ انجیل کی تمثیل میں ان کے تدریجی ارتقاء کو نمایاں فرمایا گیا ہے کہ ان کی ابتداء اگرچہ نہایت کمزور ہوگی لیکن بالآخر وہ ایک ایسے تناور درخت کی شکل اختیار کریں گے کہ ان کے سایہ میں بڑی بڑی قومیں پناہ لیں گی۔ متی باب 13: 9-3 میں یہ تمثیل یوں بیان ہوئی ہے : ”اس نے ایک اور تمثیل پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے لیکن جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آ کر اس کی ڈالیوں میں بسیرا کرتے ہیں۔“ اسی تمثیل کی اسلام کے تدریجی یہ تمثیل معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ مرقس باب 4 اور لوقا باب 8 میں بھی آئی ہے۔ اسی تمثیل کی قرآن نے یوں وضاحت فرمائی کہ جو حال کھیتی کے نشو و نما کا ہوتا ہے وہی حال اسلام کے تدریجی عروج و کمال کا ہوگا، کھیت میں جو دانے بوئے جاتے ہیں اول اول وہ باریک سوئیاں سی نکالتے ہیں پھر ان کو مزید سہارا ملتا ہے جس سے سوئیاں موٹی اور قوی ہوجاتی ہیں اور کھیتی اپنے تنہ پر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک دن آئے گا کہ جو تخم حق عرب کی سر زمین میں بویا گیا ہے اس کی فصل شباب پر آئے گی جو اپنے بونے اور آبیاری کرنے والوں کے دلوں کو تو وہ مولے گی اور ساتھ ہی ان لوگوں کے دلوں کو غم و غصہ سے جلائے گی جنہوں نے اس کے نشو و نما کو روکنے کے لئے اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ لیغبض بھم الکافر میں ’ ل ‘ غایت و انجام کے ظہار کے لئے ہے اور لفظ کغار تمثیل کے اصل مفہوم پر روشنی ڈال رہا ہے۔ تمثیل میں یہاں مراد چونکہ اہل ایمان ہیں اس وجہ سے آخر میں یہ ظاہر کر کے ان کا عروج بالآخر ایک دن کفار کے لئے باعث حسرت و حسد ہوگا گویا اس تمثیل کے ممثل کو ظاہر کردیا۔ عربی زبان میں تمثیلات و استعارات کے اندر یہ طریقہ معروف ہے کہ آخر میں کسی لفظ کے ذریعہ سے تمثیل یا استعارے کے ممثل یا مستعارلہ کو وضاح کردیتے ہیں تاکہ اصل مدعا واضح ہوجائے۔ سورة نور والی تمثیل میں اس کی نہایت واضح مثال موجود ہے۔ وعد اللہ الذین امنوا و عملوا الصلحت منھم مغفرۃ واجر عظیماً ، یہ آخر میں اسی وعدہ نصرت و مغفرت کی بشارت ہے جس کے اثابات کے لئے تورات و انجیل کی پیشین گوئیوں کا حوالہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ ان صفات کے مصداق اور ایمان و عمل میں پختہ و راسخ رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کو مغفرت اور اجر عظیم سے نوازے گا۔ رہے وہ لوگ جو ایمان کے مدعی تو بن بیٹھے لیکن ان کی ہمدردیاں اللہ و رسولک سے زیادہ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ہیں اور جنہوں نے حدیبیہ کے موقع پر وہ کمزوری دکھائی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی توہ وہ اس انجام سے دوچار ہوں گے جو اسلام کے مخالفوں کے لئے مقدر ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان سطور پر اس سورة کی تفسیر تمام ہوئی۔ فالحمد للہ علی احسانہ رحمان آباد یکم نومبر 1976 ء 8 ذی تعدہ 1396 ھ
Top